دنیا
Time 29 دسمبر ، 2019

شہریت کے قانون کیخلاف احتجاج: علیگڑھ یونیورسٹی کے ایک ہزار طلبہ پر مقدمات درج

مودی سرکار میں بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے،فوٹو:فائل 

بھارت میں شہریت سے متعلق متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر تاریخی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہزار  سے زائد طلبہ کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے۔

مودی سرکار میں بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور اب بنیادی حق کے لیے احتجاج کرنا بھی جرم بن گیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زائد طلبہ کے خلاف ایف آئی درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں یونیورسٹی کے ہزار سے زائد نامعلوم طلبہ پر فسادات کرنے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت میں گذشتہ 3 ہفتوں سے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے  جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اترپردیش اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبا پیش پیش ہیں۔

ریاستی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں پیراملٹری فورس کے دستے تعینات کرکے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جس کے باعث ریاست کے 21 اضلاع میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔

شمالی ریاست اترپردیش میں اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس سے قبل بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے احتجاج پر 60 طلبا کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

متنازع شہریت قانون کیا ہے؟

متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔

بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔

تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔

ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جاچکا ہے۔

متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔

مزید خبریں :