31 دسمبر ، 2019
بھارتی ریاست کیرالہ کے وزیراعلیٰ نے شہریت کے متنازع قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرتے ہوئے قانون کے خلاف اسمبلی میں قرار داد پیش کردی جسے منظور کرلیا گیا۔
بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور مسلمانوں سے تعصب پر مبنی اس قانون کے خلاف احتجاج میں اب تک 27 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں۔
بھارتی ریاست اترپردیش میں پولیس تشدد اور فائرنگ سے 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں، بی بی سی کے مطابق مرنے والے مظاہرین کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
ریاستی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں پیراملٹری فورس کے دستے تعینات کرکے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جس کے باعث ریاست کے 21 اضلاع میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔
اُدھرمتنازع قانون کے خلاف احتجاج میں شہریوں کے بعد حکام بھی میدان میں آگئے ہیں ،کیرالہ کے وزيراعلیٰ نے اپنی ریاست میں قانون نافذ کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے قانون کے خلاف اسمبلی میں قرار داد بھی پیش کردی جسے اسمبلی نے منظور کرلیا۔
ریاستی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائے وجے یان کا کہنا تھا کہ شہریت کا ترمیمی قانون بھارتی آئین کی بنیادی اقدار اور اصولوں کے خلاف ہے، اس لیے مرکزی حکومت ایکٹ کو واپس لے۔
کیرالہ سے قبل بھارتی پنجاب، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سمیت 6 بھارتی ریاستیں متنازع قانون نافذ کرنے سے انکار کرچکی ہیں۔
کانگریس کی رہنما پریانکا گاندھی نے کہا ہے کہ جن ریاستوں میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے وہاں متنازع شہریت قانون نافذ نہیں ہونے دیں گے۔
ان ریاستوں میں مہاراشٹرا، دہلی، کیرالہ، مغربی بنگال ، آندھرا پردیش، راجستھان ، بہار، مدھیہ پردیش، پنجاب، اڑیسہ اور چھتیس گڑھ شامل ہیں۔
دوسری جانب متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زائد طلبہ کے خلاف ایف آئی درج کی گئی ہے۔
ایف آئی آر میں یونیورسٹی کے ہزار سے زائد نامعلوم طلبہ پر فسادات کرنے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارت میں گذشتہ 3 ہفتوں سے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اترپردیش اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ پیش پیش ہیں۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جاچکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔