Time 03 جنوری ، 2020
پاکستان

آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر قائمہ کمیٹی میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی: ن لیگ کا دعویٰ

اسلام آباد: حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے مشترکہ اجلاس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر  کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی۔

 آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا مشترکہ اجلاس ہوا اور ترمیمی بل منظور کر لیا گیا۔ 

تاہم مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ  ہے کہ قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے مشترکہ اجلاس میں کوئی ووٹنگ نہیں ہوئی۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کےرہنماؤں نے قانون سازی کے لیے جلد بازی نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ حکومت درخواست مانے اورعجلت بازی میں قانون سازی نہ کرے۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) سینیٹر مشاہداللہ خان کا کہنا تھا کہ ہم نے بل منظور نہیں کیا، طریقہ کار کے تحت بل پر بحث ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے گا، اگر حکومت نے لیت و لعل سے کام لیا تو ہم ووٹ نہیں دیں گے لہٰذا قانون سازی کے طریقہ کار پر عملدرآمد کیا جائے۔

مشاہد اللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ اگر نوازشریف کی ہدایات سے کسی نے روگردانی کی تو نوازشریف کی رائے ہی حتمی ہوگی۔

یاد رہے کہ سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ اہم بل 24 یا 48 گھنٹوں میں منظور نہیں کیے جاتے، جلدبازی نہ کریں اور پروسیجرز بلڈوز نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اتنا اہم بل منظور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ جیسا نظر نہیں آنا چاہیے، حکومت پر زور دیا جائے کہ پارلیمانی اقدار اپنائی جائیں اور بل پر مثبت انداز سے دیکھا جائے گا مگر پارلیمنٹ کی توقیر پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کیا ہے؟

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی گئی تھی۔

وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 کی منظوری دی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع کا طریقہ کار وضع کیاگیا ہے۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل میں ایک نئے چیپٹرکا اضافہ کیا گیا ہے، اس نئے چیپٹر کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تعیناتی کا نام دیا گیا ہے۔

اس بل میں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت تین سال مقررکی گئی ہے جب کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے پر انہیں تین سال کی توسیع دی جا سکے گی۔

ترمیمی بل کے مطابق وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی مفاد اور ہنگامی صورتحال کا تعین کیا جائے گا، آرمی چیف کی نئی تعیناتی یا توسیع وزیراعظم کی مشاورت پر صدر کریں گے۔

'دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی'

ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا توسیع عدالت میں چیلنج نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ریٹائر ہونے کی عمر کا اطلاق آرمی چیف پر ہوگا۔

علاوہ ازیں ترمیمی بل کے مطابق پاک فوج، ائیر فورس یا نیوی سے تین سال کے لیے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کا تعین کیا جائے گا جن کی تعیناتی وزیراعظم کی مشاورت سے صدر کریں گے۔

ترمیمی بل کے مطابق اگر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی پاک فوج سے ہوا تو بھی اسی قانون کا اطلاق ہو گا، ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کو بھی تین سال کی توسیع دی جاسکے گی۔

واضح رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے مکمل ہورہی تھی اور وفاقی حکومت نے 19 اگست کو جاری نوٹیفکیشن کے ذریعے انہیں3 سال کی نئی مدت کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے گذشتہ سال 28 نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس کی سماعت کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :