06 جنوری ، 2020
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہداللہ خان نے کہا ہے کہ جو ڈیسک بجا کر کہتے تھے کہ خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں بنے گی، وہ دیکھ لیں کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ساری دنیا کے وزرائے اعظم یا وزرائے خارجہ کو فون کررہا ہے لیکن یہاں نہیں کر رہا۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ قاسم سلیمانی ایران کے اہم افراد میں سے تھے، ان کی ہلاکت کے باعث اگر جنگ ہوئی تو خطے اور امریکا پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کا مواخذہ ہے اور امریکا میں انتخابات بھی ہیں، جو ڈیسک بجا کر کہتے تھے کہ خارجہ پالیسی وزارت خارجہ میں بنے گی، وہ دیکھ لیں کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ساری دنیا کے وزیراعظم یا وزیر خارجہ کو فون کررہا ہے لیکن یہاں نہیں کررہا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ میں نہیں، فیصلے کہیں اور ہورہے ہیں، ثالثی کرانے کی بات کرنے والے اب کرائیں ثالثی اور جنگ کو روکیں، امریکا ایران کی ثالثی کرا دیتے تو آج قاسم سلیمانی زندہ ہوتے۔
خیال رہے کہ 3 جنوری کو ایران کے اہم ترین کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی گاڑی کو عراق کے دارالحکومت بغداد کے ائیرپورٹ کے قریب امریکی صدر کے حکم پر نشانہ بنایا گیا اور ان کی گاڑی پر ڈرون کے ذریعے راکٹ فائر کیے گئے جس میں قاسم سلیمانی جاں بحق ہوگئے۔
اسی روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا۔
امریکی وزیرخارجہ کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی اور ان سے عراق میں اپنے دفاع میں کی گئی کارروائی سے متعلق بات کی جس میں قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے۔
4 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیت کے پروگرام کی بحالی کی توثیق کردی۔
امریکا کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس پروگرام کی بحالی کا فیصلہ امریکا کی قومی سلامتی کے پیش نظر کیاگیا۔
میجر جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور خطے پر جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی یکطرفہ کارروائی کی تائید نہیں کرتا اور اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔