07 جنوری ، 2020
انسانوں کی طرح ان کے بیانیے بھی فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ میں نے گزشتہ برس 9 دسمبر کو انہی صفحات پر ایک مقبول عام بیانیے کی گمشدگی پر شور و غوغا کا اہتمام کیا تھا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ لاپتا ہونے والا بیانیہ نہ صرف مر گیا بلکہ اس کی مسخ شدہ لاش بھی برآمد کی جا چکی ہے۔
ہمارے ہاں فکری انحطاط کے باعث بے نوری کا یہ عالم ہے کہ برسہا برس انتظار کے بعد کوئی نیا بیانیہ جنم لیتا ہے اس لئے کسی بیانیے کا وفات پا جانا قومی سطح کا سانحہ شمار ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ نامی بیانیہ جس کی عرفیت ’’سویلین بالا دستی‘‘ تھی، کے سانحہ ارتحال پر ملک بھر میں حزن و ملال کی کیفیت طاری ہے۔ بے ثباتی کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ چند برس کے دوران ان گناہگار آنکھوں نے دو مقبول بیانیے مرتے دیکھے ہیں۔ ’
’تبدیلی‘‘ نام کا بیانیہ جس نے بیشمار لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا اور ان کا خیال تھا کہ اس بیانیے کی روشنی میں بننے والے نئے پاکستان میں کسی بدعنوان کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی، کسی کرپٹ کو این آر او نہیں ملے گا۔
قرض لینے کی نوبت آئی تو غیرت مند حکمراں خود کشی کرنے کو ترجیح دیں گے، نوکریوں کی برسات ہوگی اور ہر بے گھر شخص کو چھت فراہم کی جائے گی، یہ بیانیہ اچانک فوت ہو جاتا تو شاید اس قدر تکلیف نہ ہوتی مگر قسطوں میں نازل ہوتی دردناک موت نے اس بیانیے کے چاہنے والوں کو بہت دکھ دیا۔
’’تبدیلی‘‘ نام کا یہ بیانیہ تو اپنی طبعی عمر پوری کر چکا تھا اس لئے اس کی رحلت غیر متوقع نہ تھی مگر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ نامی بیانیہ تو بہت کم سن تھا۔ دو چار سال کی عمر کو عہدِ طفولیت کے علاوہ کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس عمر میں رُخصت ہونے پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ بیچارہ بن کھلے ہی مُرجھا گیا۔
’’ووٹ کو عزت دو‘‘ نامی بیانیہ ناتواں ضرور تھا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے توقع سے کہیں بڑھ کر مزاحمت کی۔ جن ناموافق حالات میں اس بیانیے نے جنم لیا اور جس طرح کے مصائب و آلام کا سامنا کیا، بلاشبہ ان کٹھن حالات میں جینا دشوار ہوتا ہے۔
انقلاب آفریں بیانیہ متعارف کروانے والوں کی یہ دلیل بہت معقول ہے کہ ان کے قافلے میں شامل شکستہ حال مسافر اپنے نحیف و ناتواں کندھوں پر اس بیانیے کا وزن اُٹھانے سے قاصر تھے۔
آزمائش کی گھاٹیوں میں کئی راہروانِ منزل کی ہمت جواب دے گئی، مسافتوں سے تھک کر چور ہوئے آبلہ پا ساتھی قائد سے کسی نخلستاں میں رُک کر اپنی سانسیں درست کرنے اور توانائی بحال کرنے کی التجائیں کر رہے تھے۔
خود قائد کی حالت تشویشناک تھی اور اس بیانیے کا بوجھ اُٹھا کر چلتے رہنے سے قائد کی جان جا سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت ’’جھپٹنے‘‘ کے بعد ’’پلٹنے‘‘ کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ’’پلٹنے‘‘ کا مطلب پسپائی نہیں بلکہ ’’پلٹ کر جھپٹنا‘‘ مقصود ہے۔
اس ملک میں پہلے ہی قیادت کا بحران ہے، اگر ایک اور قائد کی زندگی چلی جاتی تو ملک و قوم کی رہنمائی کا فریضہ کون سر انجام دیتا؟ مزاحمت کا عَلم کون اُٹھاتا؟ گزشتہ سے پیوستہ عشرے یعنی 2000ء میں بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا تھا۔
ہوش یا جوش میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ جوش و جذبات کا تقاضا تھا کہ حالات کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جائے مگر دور اندیشی یہ تھی کہ منہ زور آندھی سے بچنے کے لئے کچھ دیر کے لئے جھکنے میں کوئی قباحت نہیں۔ قائدِ انقلاب نے بصیرت کے تحت ایک ایسا فیصلہ کیا جو بظاہر پسپائی کا مظہر تھا مگر اسی فیصلے کی بدولت قائد انقلاب لوٹ کر آئے اور انہوں نے ایک بار پھر اپنے ادھورے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کی۔
اب بھی یہی چیلنج درپیش تھا کہ مقبولِ عام فیصلہ کرکے اپنی راہ کھوٹی کرلی جائے یا پھر غیر مقبول فیصلہ کر کے اپنے بیانیے کی قربانی دے کر صفیں درست کرنے کے لئے مہلت حاصل کی جائے۔
بعض ناہنجار کہتے ہیں کہ اگر قائد انقلاب ایسی ہی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ 1999میں کرتے تو کیا مضائقہ تھا؟ آپ آرام سے کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتے رہتے تو راوی چین ہی چین لکھتا اور جلا وطنی نامی کوئی آزمائش آپ کی دہلیز پر قدم نہ رکھتی۔ چلیں! ایک بار آپ نے ’’پنگا‘‘ لے لیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ’’اُڑنا‘‘ تو آتا ہی نہیں مگر دوسری بار ’’کھڑاک‘‘ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
چوہدری نثار کا مشورہ مان لیتے اور مدتِ ملازمت میں توسیع کا بصیرت افروز فیصلہ کر لیتے تو آج آپ چوتھی بار وزیراعظم بن کر نیا ریکارڈ قائم کر چکے ہوتے۔ اتنی سی بات تو ان پڑھ ٹرک ڈرائیور بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں جینے کے دو ہی راستے ہیں ’’پاس کر یا برداشت کر‘‘۔
اگر اوور ٹیک کرنے کے بعد کسی اور کو برداشت ہی کرنا ہے تو ایکسیلیٹر دبا کر ہارن بجاتے ہوئے بائیں طرف سے گاڑی سڑک سے نیچے اُتار کر آگے لے جانے اور جوکھم اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ Live to fight another day یعنی کسی اور دن لڑنے کے لئے زندگی بچا کر رکھنے کا تدبر اپنی جگہ مگر اس فلسفے کی روشنی میں تو ساری انسانی تاریخ ہی اُلٹ پلٹ کرنا پڑے گی۔
اس فلسفے کی روشنی میں جنرل امیر عبداللہ نیازی کو دی گئی تمام گالیوں سے رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ انہوں نے بھی تو اس فلسفے کے تحت سرنڈر کیا ہوگا کہ جان ہے تو جہان ہے۔
سقراط تو پرلے درجے کا احمق انسان قرار پائے گا جس نے ’’پلٹ کر جھپٹنے‘‘ کے بجائے زہر کا پیالہ پی کر اپنی زندگی ختم کرنے کو ترجیح دی۔ بھٹو کے مقام کا تعین بھی ازسر نو کرنا ہوگا۔
اور ایک آخری بات، غمگساروں کو پرسا دینے کی غرض سے ایک نیا بیانیہ لایا جا رہا ہے کہ یہ سب ’’چھوٹے‘‘ کا کیا دھرا ہے۔ قائد انقلاب اور ان کی پُرعزم بیٹی کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اگر کوئی آپ سے تعزیت کرتے ہوئے یہ بات کہے تو نہایت ادب سے التماس کریں کہ حضور! کوئی نئی فلم چلائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔