09 جنوری ، 2020
امریکا نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے غیر مشروط مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
امریکا کی جانب سے 3 جنوری کو عراقی دارالحکومت بغداد میں القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ڈرون حملے میں ہلاکت اور ایران کے امریکی ہوائی اڈوں پر جوابی حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔
دونوں ممالک کی قیادت کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دیئے جا رہے ہیں جب کہ اقوام متحدہ اور پاکستان سمیت بیشتر ممالک دونوں ممالک پر بات چیت کے لیے زور ڈال رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے دوران عراق میں امریکی اڈوں پر ایرانی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے ایران پر مزید سخت اقتصادی پابندیا لگانے کا اعلان کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا ایرانی حملے میں امریکی فوج کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، ایران پسپائی حاصل کر رہا ہے جو دنیا کے لیے اچھی بات ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو امن چاہتا ہے امریکا اس کے ساتھ امن کے قیام کے لیے تیار ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکی مندوب کیلی کرافٹ کی جانب سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ جنرل سلیمانی کو دفاع میں مارا اور اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو امریکی فوجیوں اور اثاثوں کی حفاظت کے لیے مزید کارروائی بھی کی جائے گی۔
کیلی کرافٹ نے مزید کہا کہ امریکا خطے میں امن و استحکام کے لیے ایران کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات سنجیدہ مذاکرات پر راضی ہے۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون دان اور کچھ ریپبلکنز اراکین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے کلاسیفائیڈ بریفنگ کے دوران ایسے کوئی شواہد پیش نہیں کیے جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ جنرل سلیمانی امریکا کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا۔