13 جنوری ، 2020
اسلام آباد: بالآخر ہوا وہ ہی جس کا ڈر تھا وفاقی حکومت کے اتحادیوں نے اختیارات نہ ملنے اور مانگیں پوری نہ ہونے پر تنگ آکر پیچھے ہٹنا شروع کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر آئی ٹی خالد مقبول صدیقی جو کہ پہلے ہی اپنی وزارت سے انتہائی ناخوش تھے گوگل چھوڑ کر پاکستان آنے والی اور حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کو ڈیجیٹل دنیا کا ایک بڑا نام بنانے کی کوششیں کرنے والی ڈیجیٹل پاکستان پروگرام کی سربراہ تانیہ ادرس کی مسلسل مداخلت کے باعث وزارت سے مستعفی ہوگئے ہیں۔
خالد مقبول اپنی ہی وزارت میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگے تھے: ذرائع
ذرائع بتاتے ہیں کہ وزارت کے لیے دوسرا نام امین الحق کا دیا گیا تھا جبکہ فیصل سبزواری کو مشیر بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا مگر کسی بھی وعدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور کارکن شدید بددل ہوچکے ہیں۔
پی ٹی آئی اور حکومتی ذرائع نے تانیہ ادرس سے متعلق ہر الزام کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں وہ اپنی ذمے داریاں اچھی طرح سرانجام دے رہی ہیں اور انہوں نے کوئی بھی ایسا کام بالا بالا نہیں کیا جو خلاف ضابطہ ہو، وہ اپنی ذمے داریاں انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں سرانجام دے رہی۔
خالد مقبول صدیقی کے پاس وزارت سے استعفی دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا کیونکہ ایک طرف تو انھیں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی طرف سے شدید دباؤ تھا کہ اُن کی نوکریوں کے لیے کچھ کیا جائے تو دوسری طرف خالد مقبول کا بطور وزیر کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔دُوسری جانب خالد مقبول صدیقی کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ وہ اپنی ہی وزارت میں اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگے تھے اور تانیہ ادرس نے وزیر اعظم اور دوسرے اداروں سے براہ راست ملاقاتیں شروع کردی تھیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ اُن اداروں کو بھی ہدایات دینے لگی تھیں جن پر وزارت کے معاملات چلانے کی ذمہ داری تھی جس کی شکایت وفاقی سیکریٹری آئی ٹی شعیب صدیقی نے بھی کئی بار کی۔
خالد مقبول اس بات پر بھی دل برداشتہ ہیں کہ وہ رابطہ کمیٹی کے کنوینر ہیں مگر حکومت سندھ میں اہم ذمے داری کسی اور کو دینا چاہتی ہے جس کے فیصلے بالا ہی بالا کیے جارہے ہیں اور اُن سے کوئی رائے نہیں لی گئی۔
اب خالد مقبول کسی بھی قیمت پر وزارت واپس نہیں لیں گے : ذرائع
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ اب خالد مقبول کسی بھی قیمت پر وزارت واپس نہیں لیں گے کیونکہ ماضی کی ایم کیو ایم اس حوالے سے پہلے ہی بدنام ہے کہ وہ وزارتوں اور اتحادوں سے اس لیے باہر نکلتی ہے تاکہ حکومت کو بلیک میل کرسکے جس سے ایم کیو ایم اور پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے شہر کراچی کے باسیوں کا تشخص متاثر ہوتا ہے لہٰذا اس دفعہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر اور پکا کیا گیا ہے اور ایم کیو ایم اب کسی بھی ہرزہ سرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ ہمیں پڑھے لکھے ووٹرز کا سامنا ہے جن کو ہر بات کا جواب چاہیے ہوتا ہے۔
دوسری طرف سندھ حکومت سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا کہ کیا ایم کیو ایم اب آپ کے ساتھ شامل ہورہی ہے تو ترجمان مرتضی وہاب نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ متحدہ کو دعوت دی ہے اور ایم کیو ایم جان لے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اگر کراچی کے لیے کچھ دیا بھی تو اپنے جیتنے والے ممبران کے ذریعے دے گی ایم کیو ایم کے نہیں کیونکہ اگر پی ٹی آئی نے ایسا نہ کیا تو اُس کو اگلے الیکشن میں کوئی ووٹ نہیں دے گا تاہم یہ بھی ایک سچ ہے کہ کراچی پی ٹی آئی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں۔
بلاول بھٹو نے انتہائی خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ متحدہ کو دعوت دی: مرتضیٰ
مرتضی وہاب نے کہا کہ متحدہ کا وفاقی حکومت سے معاہدہ دراصل سیاسی خود کشی ہے کیونکہ دونوں کا ووٹر ایک ہی ہے اور ووٹر اُسی کو ووٹ دے گا جو اُس کو فائدہ دے گا لہٰذا وفاقی حکومت جان بوجھ کر متحدہ کے لیے مسائل کھڑی کررہی ہے تاکہ اُن کا ووٹر بدزن ہو، اگر متحدہ کو تھوڑی بھی عقل ہوئی تو وہ میری اس بات کو سمجھ جائے گی بصورت دیگر جو بچی کچی متحدہ ہے وہ بھی جلد ختم ہوجائے گی۔