13 جنوری ، 2020
کراچی: اتحادی جماعت ایم کیوایم کو منانے کے لیے پی ٹی آئی کا وفد متحدہ کے عارضی مرکز بہادر آباد گیا جہاں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔
ایم کیو ایم کو منانے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر تحریک انصاف کا وفد کراچی میں عارضی مرکز بہادر آباد پہنچا جس میں وفاقی وزیر اسد عمر، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خرم شیر زمان اور فردوس شمیم نقوی شامل تھے۔
پی ٹی آئی وفد اور ایم کیوایم کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والے مذاکرات بظاہر ناکام نظر آتے ہیں۔
مذاکرات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران خالد مقبول صدیقی نے وزارت سے دیا گیا استعفیٰ واپس نہ لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ سو فیصد وزارت چھوڑنے کے فیصلے پر قائم ہوں۔
اس موقع پر اسد عمر نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ خالد مقبول کابینہ کا حصہ رہیں لیکن وہ اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ بڑے منصوبوں پر جلد کام شروع ہوجائے گا، اتفاق ہے کراچی کے لیے مل کر کام کریں گے، کراچی والوں کو حقوق نہیں ملے۔
اتفاق ہے کراچی کے لیے مل کر کام کریں گے: اسد عمر
وفاقی وزیر نے بتایا کہ کراچی کے لیے 162 ارب کے منصوبے ہوں گے، ایک ایک منصوبوں پر بریفنگ دوں گا۔
گورنر سندھ کی تبدیلی کے سوال پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ گورنر کی تبدیلی کی افواہ بھی نہیں سنی، گورنر عمران اسماعیل زبردست کام کررہے ہیں، ان کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
اتحادیوں کی جانب سے ساتھ چھوڑنے کے سوال پر اسد عمر نے کہا کہ جب اسمبلی میں ووٹ آتے ہیں جب ٹیسٹ ہوتا ہے، ابھی تک کوئی ایسا مرحلہ نہیں آیا جہاں ہمیں ووٹ کی کمی ہوئی، فی الحال ووٹ بڑھتے نظر آرہے ہیں کم نہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایم کیوایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے وعدے پورے نہ ہونے کا الزام لگاکر کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
خالد مقبول صدیقی کی کابینہ سے علیحدگی کے اعلان کے بعد وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی جس کےبعد گورنر سندھ عمران اسماعیل نے خالد مقبول صدیقی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا اور ان کے مطالبات کو جائز قرار دیا تھا۔
ایم کیوایم اور پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ ان کا یہ اتحاد صرف اور صرف ’عوام کے وسیع تر مفاد‘ میں ہے، بالخصوص اس سے کراچی والوں کا ’فیضیاب‘ ہونا مقصود تھا۔
اسی لیے اس کی بنیاد ایک مفاہمتی یادداشت بنی جس پر 3 اگست 2018 کو بنی گالا میں دونوں فریقین کے وفود کی ملاقات کے بعد دستخط ہوئے۔
یہ یادداشت 9 نکات پر مشتمل تھی۔ جس میں،
365 دنوں میں دونوں اتحادیوں کی نصف درجن بیٹھکوں کے باوجود مفاہمتی یادداشت کے کسی ایک مطالبے پر تاحال مکمل عمدرآمد نہیں کیا گیا۔
ماضی میں بات بات پر حکومت سے روٹھ جانے والی ایم کیوایم پاکستان نے اس بار یہ روایت بھی توڑ ڈالی اور ہر مشکل گھڑی میں بلاتردد تحریک انصاف کی آواز پر لبیک کہا۔
ایوان زیریں میں عمران خان کے بطور وزیراعظم انتخاب سے لے کر ایوان بالا میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد تک متحدہ نے اپنی حمایت کا وزن پی ٹی آئی کے پلڑے میں ڈالا۔
حالیہ عام انتخابات میں تحریک انصاف متحدہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اعداد کے لحاظ سے ایم کیوایم کو کراچی میں پیچھے چھوڑچکی ہے۔
واضح رہےکہ چند روز قبل پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کو پیشکش کی تھی کہ وہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں ہماری مدد کریں اور سندھ حکومت میں شامل ہوکر اپنی پسند کی وزارتیں لیں جب کہ گزشتہ روز سندھ کے وزیر ناصر شاہ نے ایک بار پھر کہا کہ ایم کیو ایم کے لیے پیشکش اب بھی برقرار ہے۔