مریم ایک بار پھر مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئیں

سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز—فوٹو فائل

وہ ایسے سیاسی کارکن تھے جن کے بارے میں روایت مشہور تھی کہ وہ ووٹوں سے بیلٹ باکس تو بھر سکتے ہیں لیکن کسی قسم کا احتجاج اُن کے خمیر میں شامل نہیں ہے۔ پھر اِس روایت کے ٹوٹنے کا وقت آن پہنچا۔ 

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 28جولائی 2017کو نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیا تو زخم خوردہ قائد مسلم لیگ (ن) نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگا دیا جس کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی تاریخ بھی تبدیل ہو گئی۔ قائد کی بیٹی نے سویلین بالا دستی کا نعرہ لگاتے ہوئے باپ کی ہاں میں ہاں کیا ملائی کہ جیسے کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہو۔ اِنہی کارکنوں نے جب اپنے قائد اور اس کی بیٹی کے منہ سے یہ الفاظ سنے کہ اب محض نئے انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ نئی شرائط لکھی جائیں گی کہ ملک میں حکومت کون کرے گا تو اُنہوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ بیانیے کا تعویذ بنا کر گلے میں پہن لیا۔ 

پھر عام انتخابات سے پہلے پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو اس بیانیے کے پیروکاروں کا امتحان بھی ہوا لیکن پارٹی کے مفاہمتی گروپ کی طرف سے جذبات سے بھرے کارکنوں کو عام انتخابات کے انعقاد تک احتجاج سے باز رہنے کا کہہ دیا گیا، پھر ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی گئی۔ 

باپ بیٹی لندن سے گرفتاری دینے پاکستان پہنچے تو بیانیے کے اسیر ن لیگی کارکنوں نے لاہور کی سڑکوں کو عوام کے سمندر میں تبدیل کردیا تاہم اُنہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ائیر پورٹ تک نہیں لے جایا گیا اور وہ بیانیے کے تعویذ کو چومتے رہ گئے۔ کلثوم نواز کی رحلت، باپ بیٹی کی پیرول پہ رہائی اور نواز شریف اور مریم نواز کی طویل چپ پہ ورکرز اس خاموشی کو اہلیہ اور والدہ کے کھو جانے کا غم سمجھ کر بہلتے رہے، ایون فیلڈ ریفرنس میں سنائی گئی سزا معطل ہوئی تو کارکنوں میں ڈیل کے حوالے سے کھسر پھسر شروع ہو گئی، پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے خلاف نت نئے مقدمات قائم کرنے اور اُنہیں حراست میں لینے کا سلسلہ جاری رہا، پارٹی کو اِس حد تک دیوار سے لگائے جانے پر کارکنوں نے ایک بار پھر گلے میں پہنے ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے کے تعویذ کو ہاتھ سے ٹٹولا اور قیادت کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھا لیکن انہیں اس تعویذ کے زود اثر ہونے تک مزید انتظار کا عندیہ دے دیا گیا۔ 

اِس دوران العزیزیہ ریفرنس میں بھی نواز شریف کو سزا سنا دی گئی اور اُنہیں ایک بار پھر جیل میں پہنچا دیا گیا لیکن مفاہمتی ٹولے کی پالیسی غالب رہی اور کارکن تلملاتے ہی رہ گئے۔ جیل میں نواز شریف کی طبیعت بگڑنے کی اطلاعات آتی رہیں۔ طبی بنیادوں پہ نواز شریف کو چھ ہفتوں کی ضمانت ملی لیکن اس عرصے میں بھی مصلحت آڑے رہی، ضمانت کے چھ ہفتے پورے ہونے پہ نواز شریف کو ریلی کی صورت میں کوٹ لکھپت جیل واپس لے جاتے ہوئے ان کے اس وڈیو بیان نے کہ انہیں ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پہ قائم رہنے کی سزا دی جا رہی ہے۔

 کارکنوں کے ضبط کے سارے بندھن توڑ دئیے، کارکنوں پہ اس تعویذ کا جادو دیکھ کر مفاہمتی گروپ نے بھی ٹسوے بہانے شروع کر دئیے، مریم نواز نے بھی مصالحانہ خاموشی کو ترک کرکے مزاحمتی علم تھام لیا اور ملک بھر میں جلسے اور ریلیاں کرنے کا اعلان کردیا، کارکنوں کے لیے تو گویا عید ہو گئی وہ پوری رات قائد کی بیٹی کے استقبال کے لیے سڑکوں پہ انتظار کرتے دکھائی دئیے، اسی دوران نواز شریف سے جیل میں روا رکھے گئے سلوک پہ مریم نواز نے اپنے چچا اور سینئر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کر کے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ وڈیو جاری کر کے بیانیے میں نئی روح پھونک دی تاہم مسلم لیگ (ن) کے لیے مزید کڑا وقت شروع ہوگیا، سینیٹ الیکشن میں ووٹ کی عزت کی حرمت سرِعام نیلام ہوئی تو کارکن ہاتھ ملتے رہ گئے۔

 مریم نواز کو دوبارہ خاموش کرانے کے لیے چوہدری شوگر ملز ریفرنس میں باپ کے سامنے گرفتار کر لیا گیا، کارکن ایک بار پھر مفاہمتی گروپ کے رحم و کرم پہ آ گئے جہاں سوائے بےبسی اور صبر کے گھونٹ پینے کے کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا، نواز شریف نے آخری مزاحمت کے طور پہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں داماد کیپٹن صفدر کے ذریعے بھرپور شرکت کا پیغام بھیجا لیکن اسے بھی ہائی جیک کر لیا گیا۔ 

نواز شریف کے پارٹی رابطوں کو ختم کرنے کے لیے اُنہیں کوٹ لکھپت جیل سے نیب کی جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں اُن کی طبیعت سخت خراب ہو گئی، کارکنوں نے پھر پارٹی رہنماؤں کی طرف دیکھا جہاں بس امن اور شانتی تھی۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہنے کے بعد نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس اور چوہدری شوگر ملز ریفرنس میں ضمانتیں ہوئیں انہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت ملی جب کہ مریم نواز کو بھی ضمانت مل گئی، نواز شریف لندن روانہ ہو گئے اور مریم جاتی امرا میں ایک بار پھر مصلحت کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئیں۔

 اِسی دوران آرمی ایکٹ میں ترامیم کی صورت میں ’ووٹ کو عزت دو‘ بیانیے کا پہلا عملی لٹمس ٹیسٹ سامنے آیا تو کارکنوں سمیت پارٹی رہنماؤں کی امیدوں کا بت پاش پاش ہو گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کارکن استفسار کر رہے ہیں کہ ’ووٹ کو عزت دو‘ بیانیے کے اس تعویذ کو گلے سے اتار کر پانی میں گھول کر پی جائیں یا کسی نہر میں بہا دیں، نواز شریف اور مریم نواز بھلےاپنی مجبوری اور لاچاری کا ان کارکنوں کو جواب نہ دیں لیکن وہ پرویز رشید جیسے مخلص پارٹی رہنما کے اس شعر پہ ضرور کوئی تبصرہ فرما دیں کہ؎

ان تُند ہواؤں میں بکھر کیوں نہیں جاتے

ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

مزید خبریں :