18 دسمبر ، 2019
آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل)کی جنرل سیکرٹری مہرین ملک آدم نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف سزا انہیں سنے بغیر سنائی گئی، اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اے پی ایم ایل کی جنرل سیکرٹری مہرین ملک آدم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف بار بار درخواست کرتے رہے ہیں کہ سزا ان کی غیرموجودگی میں نہ سنائی جائے اور انہیں خصوصی عدالت میں دفاع کا حق دیا جائے۔
مہرین ملک آدم کا کہنا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف کا ٹرائل غیر آئینی تھا اور سب سے زیادہ غیر آئینی طریقے سے اس کیس کی سماعت کی گئی۔
اے پی ایم ایل کی رہنما کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی طرف سے دیے گئے یکطرفہ فیصلے پر تحفظات ہیں، قانونی ٹیم سے مشاورت کررہے ہیں، جلد اپنی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔
آل پاکستان مسلم لیگ کی جنرل سیکرٹری نے کہا کہ قانون کے پابند شہری کے طور پر پرویز مشرف تمام عدالتوں میں پیش ہوئے، ان کے خلاف بنائے گئے تمام کیسز بدنیتی پر مبنی ہیں، سابق صدر کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انہوں نےکہاکہ پرویزمشرف کے خلاف کیس غلط طریقے سے بنایا گیا، کیس میں معاونین اور مددگاروں کو شامل نہیں کیا گیا اور سابق صدر کو واحد ذمہ دار قرار دیا گیا، حالانکہ یہ فیصلہ کابینہ، صوبائی وزرائے اعلٰی، گورنرز اور کورکمانڈرز کی مشاورت کے بعد کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی اور جسٹس سیٹھ وقار نے چار سطروں پر مشتمل مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے آئین شکنی کے جرائم ثابت ہوئے۔
تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ نمائندہ جیو نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جج نظر محمد اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔