14 جنوری ، 2020
ریاست کیرالہ شہریت کا متنازع قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والی پہلی بھارتی ریاست بن گئی۔
بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں تاہم اب بھارتی ریاست کیرالہ قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔
کیرالہ کی حکومت نے سپریم کورٹ میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف درخواست دائر کی ہے جس میں قانون کو بھارتی آئین کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شہریت کا قانون سیکولرازم کے حقیقی اصولوں، بھارتی آئین کے مطابق مساوی حقوق، جینے کے حق اور مذہبی آزادی کے حق کے خلاف ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق متنازع شہریت کے قانون کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں 50 سے زائد درخواستیں زیر التواء ہیں تاہم کسی بھی ریاست کی جانب سے یہ پہلی درخواست ہے۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کیرالہ پہلی بھارتی ریاست بن چکی ہے جس نے متنازع قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جبکہ دیگر ریاستوں کی جانب سے بھی اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیے جانے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی ریاست کیرالہ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکومت قائم ہے جس کے وزیراعلیٰ پینارائے وجے یان ہیں۔
متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی تھی۔
بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
تارکینِ وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔
ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جاچکا ہے۔
متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔