21 جنوری ، 2020
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پی آئی اے کے سی ای او ائیر مارشل ارشد ملک کی کام جاری رکھنے کی استدعا مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد محمود ملک کو کام سے روکنے کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آج اخبار میں خبر ہے کسی ائیرکموڈور کو 70 کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا گیا۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیےکہ جنگ اخبار میں تین کالم خبر چھپی ہے، خبر کے مطابق ایک ائیر کموڈور کی دو ماہ پہلے فرم رجسٹر کی گئی، ائیر کموڈور کی فرم کو 70 کروڑ کا ٹھیکہ دیا گیا، یہ سی ای اوجب سے آئے ہیں پی آئی اے میں کرایہ 100 فیصد بڑھا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ پی آئی اے کو خاندانی کمپنی بنادیا گیا ہے، سی ای او موصوف پی آئی اے میں خود ڈیپوٹیشن پر آئے، ڈیپوٹیشن پر آنے والے سی ای اونے 4 ائیر فورس کے مزید افسران ڈیپوٹیشن پر لیے، 4 ائیر وائس مارشل، 2 ائیرکموڈور، 3 ونگ کمانڈر اور ایک فلائٹ لیفٹیننٹ کوڈیپوٹیشن پرلیا گیا، بہتر ہے کہ پی آئی اے کو پاکستان ائیر فورس کے حوالے کردیں۔
جسٹس سجاد نے مزید ریمارکس دیے کہ شاہین ائیرلائن آپ سے چلی نہیں اور چلے ہیں پی آئی اے چلانے، چیئرمین/سی ای او پی آئی اے کی بھرتی کے اشتہار کا بھی جائزہ لیں گے، دیکھیں گے کہ کہیں ارشدملک کی قابلیت مدنظر رکھ کر اشتہار ڈیزائن تو نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ ذرا خود جاکر پی آئی اے میں سفر کریں، جاکر دیکھیں پی آئی اے کا حال کیا ہے، یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ قوم کی ملکیت ہے، ہم پی آئی اے کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم سی ای او کو کام سے روکنے کے حکم کو معطل نہیں کریں گے ۔
عدالت نے قومی ائیر لائن پی آئی اے کے سی ای او ارشد ملک کی کام جاری رکھنے کی استدعا مسترد کردی جب کہ عدالت نے قومی ائیرلائن کےامور چلانے کا اختیار بورڈ آف گورنرز کو سونپ دیا۔
عدالت نے اس حوالے سے سندھ ہائیکورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔