Time 23 جنوری ، 2020
بلاگ

گورننس کا بحران

فائل فوٹو

آٹے کی قیمت میں اضافہ کنٹرول نہ ہوسکا، اصل بحران حکومت اور انتظامیہ کا ہے جہاں قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی بتارہی ہے کہ گورننس کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔

گزشتہ کئی دنوں سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کی سرخیوں اور ہیڈلائنز کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاید ملک میں آٹا ختم ہوگیا ہے اور کہیں موجود نہیں ہے۔

وفاق اور صوبائی حکومتوں نے بھی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ ، ذرا گہرائی سے معاملے کو دیکھیں تو آٹا تو ہردکان ، بازار اور اسٹورز پر دستیاب ہے بس قیمت میں اضافہ ہوچکا ہے۔

قیمتوں کو کنٹرول کرنا انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن یہ وہ شعبہ نظر آیا جہاں کام کا بحران نظرآیا۔ انتظامیہ نے آٹے سمیت دیگر غذائی اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کام جیسے ختم کردیا ہے یہ وہ بحران ہے جس میں بڑے بڑے کھلاڑی ملوث ہیں اور غیر محسوس طریقے ایک ایک دن میں اربوں روپے سمیٹ لیتے ہیں۔

گندم سرکاری گوداموں میں موجود ہے ملوں کے پاس بھی آٹا وافر مقدار میں موجود ہے ، یہ اطلاعات بھی آئیں کہ آٹا بیرون ملک اسمگل ہوتا رہا ہے، جب یہ سب اطلاعات سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیو کے ساتھ عام لوگ شیئر کررہے ہیں تو کیا سرکاری اداروں میں منصوبہ بندی اور فوری اقدامات کرنے کے عمل میں فیصلہ سازی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔

غیرمعمولی موسمی تغیرات یہ بتارہے ہیں کہ اب تک ہم نے غذائی بحران کا اندازہ ہی نہیں کیا، ابھی تو انسانی خود غرضی اور لالچ کی وجہ سے ملک میں غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

خدا نہ کرے کہ موسم کے اثرات سے فصلوں کو نقصان پہنچا تو اس کی منصوبہ بندی کا کسی نے سوچا بھی ہے،  صورت حال یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزی ، ناجائز منافع خوری اور غذائی اشیاء کو ملکی ضروریات مکمل نہ ہونے کے باوجود بیرون ملک اسمگل کیا جانا کسی ادارے کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

کون سی پوشیدہ قوتیں ہیں جو یہ کھیل کر ملک میں انتشار پیدا کرکے عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کررہی ہیں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھوک جہاں عام آدمی کو خودکشی پر مجبور کررہی ہے وہاں وہ بنیادی حق اور اپنے بچوں کی بھوک سے تنگ آکر جرم پر بھی آمادہ ہوجائے گا اور حق چھیننے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر عار محسوس نہیں کرے گا۔

ربات اختیار کو یہ بات سمجھناہوگی کہ عام آدمی کے بنیادی حقوق پر چند لوگوں کے مفادات کو ترجیح دے کر سیاست نہیں کی جاسکتی گورننس کو ہر صورت بہتر کرنا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔