گندم کا بحران کیوں؟

یہ بحران تب تک چلے گا جب تک نئی فصل تیار نہیں ہوتی اور نئے پاکستان کی تعمیر پر سرمایہ کاری کرنے والے اپنی رقوم بھاری سود کیساتھ وصول نہیں کر لیتے—فوٹو اے ایف پی

تکلف برطرف، یہ گندم کا بحران نہیں نااہلی کی میراتھون ریس کا میدان ہے۔ سلطنتِ شغلیہ کے امور چلانے کی غرض سے نہایت اہتمام سے جو ’’رنگیلے‘‘جمع کیے گئے تھے ان کی محنت برگ و بار لارہی ہے اور یہ تماشا اب ختم ہونے والا نہیں۔

 4 ماہ پہلے انہی صفحات پر لکھے گئے کالم میں خبردار کیا تھا کہ گندم کی قلت کا بحران بہت جلد دستک دے گا مگر دادو ستد کے ڈونگرے برساتے خوشامدیوں کے شور میں ایسی باتیں کہاں سنائی دیتی ہیں۔ 12ستمبر 2019کو ’’اب پیسہ کہاں جا رہا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں لکھا تھا ’’20کلو آٹے کا تھیلا 750روپے کا ہو چکا ہے جبکہ چکی کا آٹا جو ایک سال پہلے 42روپے کلو دستیاب تھا اب 55روپے کلو ہو چکا ہے۔

کیا گندم درآمدی اشیاء میں شامل ہے؟ کیا حکومت نے کسی قسم کا کوئی نیا ٹیکس لگا دیا ہے؟ یا پھر گندم کی قیمت اچانک بڑھ گئی ہے؟ گندم کا سرکاری نرخ گزشتہ برس بھی 1300روپے فی من تھا اور اس سال بھی یہی ریٹ مقرر کیا گیا تھا تو آٹے کے نرخ کیسے بڑھ گئے؟ کیا کوئی پوچھنے والا ہے؟ ایک بری خبر یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران آٹے کی قیمتوں میں نہ صرف مزید اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ گندم اور آٹے کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ 

ہر سال تقریباً 1.5ملین ٹن گندم وفاقی ادارہ ’’پاسکو‘‘خریدتا ہے جبکہ 3سے 4ملین ٹن گندم پنجاب کا محکمہ خوراک خریدتا ہے تاکہ مصنوعی ذخیرہ اندوزی یا اسمگلنگ کے ذریعے ملک میں غذائی بحران کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے۔ 

گزشتہ برس پنجاب حکومت نے 40لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کا ہدف مقرر کیا جسے 90فیصد حاصل کر لیا گیا۔ اس سال تبدیلی سرکار نے گندم خریداری پالیسی کا اعلان کیا تو خریداری کا ہدف مقرر نہیں کیا گیا۔ محکمہ خوراک کے ترجمان بتاتے ہیں کہ اس سال 33لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے جبکہ دیگر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ گندم خریداری اس سے کہیں کم ہے۔ 

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عالمی بینک سے قرض لینے کے لئے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ 2021تک سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا سلسلہ ترک کردیا جائے گا۔ گندم کی سرکاری سطح پر کم خریداری کے پیش نظر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران نہ صرف غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ آٹے کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے‘‘۔

ممکنہ بحران کی نشاندہی اس لئے کی کہ اس کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے۔ مہنگائی اور قلت کے یہ طوفان خود بخود نہیں آتے بلکہ مد و جزر برپا کرنے کے لئے بہت مشقت کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر 2018کے آخر میں اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے گندم برآمد کرنے کی اجازت حاصل کی گئی اور گندم بیرونِ ملک فروخت کرکے پیسے کمائے گئے۔ گزشتہ برس حکومت پاکستان سے یہ فیصلہ کروایا گیا کہ 4000ٹن اضافی گندم خیر سگالی کے طور پر افغانستان کو بطور تحفہ دیدی جائے۔

 جب گندم خریدنے کا موقع آیا تو پاسکو اور صوبائی محکموں سے گٹھ جوڑ کرکے گندم کی خریداری کا ہدف مقرر نہیں ہونے دیا گیا۔ جب کسان مجبور ہوا تو ان مافیاز نے سستے داموں گندم خرید کر اسٹاک کرلی۔ گندم کی فراہمی روک دی گئی اور اب جب مصنوعی بحران کے نتیجے میں آٹے کی قیمت 40روپے فی کلو سے 70روپے فی کلو ہو چکی ہے تو نہ صرف سستا اناج مہنگے داموں فروخت کرکے پیسے کھرے کئےجا رہے ہیں بلکہ ایک بار پھر اقتصادی رابطہ کمیٹی سے ٹیکس فری گندم درآمد کرنے کی اجازت لے لی گئی ہے۔ گویا، آم تو آم گٹھلیوں کے بھی دام۔

 اب یہ بحران تب تک چلے گا جب تک نئی فصل تیار نہیں ہوتی اور نئے پاکستان کی تعمیر پر سرمایہ کاری کرنے والے اپنی رقوم بھاری سود کیساتھ وصول نہیں کر لیتے۔

پاکستان میں پہلی بار گندم کا بحران دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کے دور میں پیدا ہوا۔ آٹے کی قِلت کے باعث احتجاجی مظاہرے ہونے لگے تولیاقت علی خان کو دیے گئے خطاب ’’قائد ملت‘‘ کے طرز پر خواجہ ناظم الدین کو ’’قائد ملت‘‘ کہا گیا۔ اس بحران کو بنیاد بنا کر گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا۔ بعد ازاں سامنے آنے والے حقائق سے معلوم ہوا کہ یہ بحران مصنوعی تھا اور اس کا مقصد خواجہ ناظم الدین سے وزارتِ عظمیٰ کا کمبل چھیننا تھا۔ 

خواجہ ناظم الدین ملک کو امریکی کالونی بنانے کے خلاف تھے جبکہ گورنر جنرل غلام محمد، سیکریٹری جنرل اور وزیر خزانہ چوہدری محمد علی، آرمی چیف فیلڈ مارشل ایوب خان اور وزیر دفاع اسکندر مرزا سمیت بیوروکریسی کے تمام سرکردہ افراد پاکستان کو امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین کو ہٹا دیا گیا اور محمد علی بوگرہ وزیراعظم بنے تو چند ماہ بعد ہی کراچی سے امریکی گندم پورے ملک میں تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔ جن اونٹوں پر امریکی اناج کے تھیلے لدے ہوتے ان کے گلے میں ’’تھینک یو امریکہ‘‘ کے بینر آویزاں ہوتے۔

پاکستان میں یوں تو کئی بار اس نوعیت کے بحران آئے مگر آخری بار یہ کیفیت جنرل پرویز مشرف کے دور میں سامنے آئی جب پہلے گندم اور پھر چینی کا بحران پیدا ہوا۔ دل تھام کر پڑھیے کہ تاریخ دہرانے کی تمام تر تیاریاں مکمل ہیں اور گندم کے بعد چینی کا بحران بھی انگڑائی لے رہا ہے۔ چینی جو گزشتہ برس کے آغاز میں 54روپے کلو تھی،اس کے نرخ 85روپے کلو تک لے جا کر پہلے ہی شوگر مافیا اپنے پیسے پورے کر چکا ہے مگر موقع غنیمت جان کر ایک بار پھر کمائی کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں بھی ’’صادق و امین‘‘ لوگ متعارف کروانے کیلئے سیاسی سرمایہ کاری کی ضرورت پڑے تو اپنی جیب سے نہ لگانا پڑے۔ 

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں گندم اور چینی کا بحران آیا تو جہانگیر ترین، چوہدری پرویز الٰہی، خسرو بختیار، زبیدہ جلال، عمر ایوب اور شیخ رشید جیسے لوگ پرویز مشرف کی ٹیم کا حصہ تھے اور اب بھی یہی لوگ نااہل ترین حکومت کا حصہ ہیں؟ تو پھر مان لیجئے کہ یہ گندم کا فقدان نہیں نااہلی کا بحران ہے۔

مزید خبریں :