’’ریاست ِمدینہ‘‘ میں ناتمام شامِ غریباں

آج ہم اپنے قومی سراپے کا جائزہ لیں کہ دوسروں کو غدار و چور کہنے والوں کی اپنی حب الوطنی کہاں کھڑی ہے؟—فوٹو فائل 

حضرت میر نے کہا تھا ؎

کہاں تک ناز برداری کروں شامِ غریباں کی

کہیں گردِ سفر سے جلد بھی صبحِ وطن نکلے

لگتا مگر یہ ہے کہ دعا بےاثر اور ہنوز شامِ غریباں ناتمام۔ تاریخ کا نوحہ یہ ہے کہ بہروپیوں نے اسلام کے مقدس نام کو ہر دور میں اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اس میں مسلم غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیفٹننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف لارنس آف عربیہ کو کون نہیں جانتا، جس نے عالم کا روپ دھار کر اسلامی خلافت کے خاتمے کے لئے عربوں کو برسر پیکار کیا۔ 

اس برطانوی شعبدے باز نے جس طرح دین فروشوں کو ساتھ ملا کر احادیث گھڑیں وہ ایک عبرتناک باب ہے۔ ایسی کہانیاں تراشی گئیں کہ اور تو اور ہندوستان سے بھی مسلمان شوقِ جہاد میں اَن دیکھے عیسائیوں کے دست و بازو بنے۔ مسٹر نلسن اپنی تصنیف تاریخی جنگ میں رقمطراز ہیں ’’آخری صلیبی جنگ عروج پر تھی، اگر سینٹ لوئس، ریمنڈ اور رچرڈ شاہ انگلستان ان ’’حیرت افزا‘‘ افواج کو دیکھتے تو ان کی روحیں اس وجہ سے متحیر ہو جاتیں کہ اس کا بہت قلیل حصہ مغربی اقوام (یورپ) پر مشتمل تھا، الجزائری اور ہندی مسلمان، عرب قبائل، ہندوستان کے ہزار ہا فرقوں کے ماننے والے، افریقہ کے حبشی اور یہودی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ’’نصاریٰ کے مقدس شہر‘‘ کو آزاد کرا لیا تھا‘‘۔ 

دوسری جنگ عظیم کے دوران فرنگی استعمار مسلم ملائوں کے توسط سے ہندوستان کے مسلمانوں کو خطبے دیتے تھے کہ چونکہ مسلمانوں کی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت پاتی ہیں لہٰذا برطانوی عیسائیوں کیلئے جو اہل کتاب ہیں، فتحیابی کی دعائیں کی جائیں۔ انگریز مکار کا ایمان و ایقان مسلمانوں کی دعا کی اثر پذیری پر تھا ہی نہیں، وگرنہ وہ خود اسلام قبول کر لیتے۔

 ایجنڈا صرف یہ تھا کہ اس طرح مسلمانوں کو باور کرایا جا سکے کہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے تاکہ برطانوی فوج میں شامل مسلمان جذبۂ حق سے سرشار ہوکر آمادہ کار ہو سکیں۔ افغان جہاد کو ہولی وار بنانے سے لیکر اسرائیلی تسلط کی خاطر آزمائے جانے والے ہتھکنڈوں تک کا دراز سلسلہ تو اپنی جگہ لیکن جتنا ہم نے اسلام کے مقدس نام کو اپنے چھوٹے مقاصد کیلئے استعمال کیا، وہ شرمنا ک ہی نہیں اسلام سے ہماری حقیقی وابستگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ 

ہمارے بعض مولوی صاحبان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی بدولت پاکستان مدینے کی ریاست بن چکا ہے، اس سے بڑی خوش بختی کوئی اور کیا ہوتی کہ وطن عزیز کامل نہ سہی کسی قدر تو مدینہ کی ریاست کا عکس ہوتا لیکن جو صورت حال اس وقت یہاں کے غریب عوام کو درپیش ہے، کیا اُس کے تناظر میں ہم ایسے کسی دعویٰ میں حق بجانب ہو سکتے ہیں؟

ہم یہاں دواؤں سمیت ضروریاتِ زندگی کی ہر شے کے ہوشربا نرخنامے کو آویزاں کرنا نہیں چاہتے کہ اس سے کون آگاہ نہ ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک واقعہ زیر گردش ہے کہ جب جاپان میں طوفان سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تو بی بی سی نے ایک پروگرام نشر کیا تھا کہ ایک بوڑھی جاپانی عورت جاپانی الیکٹرک سامان فروخت کر رہی تھی، جب نمائندے نے اس سے نرخ معلوم کیے تو وہ حیران رہ گیا کہ اس پروڈکٹ کا ریٹ مارکیٹ ریٹ سے بہت کم تھا، وجہ بتاتے ہوئے عورت نے کہا کہ میں مارکیٹ جاکر ہول سیل پر سامان خرید کر لاتی ہوں اور اپنے مصیبت زدہ لوگوں کو بیچتی ہوں، نمائندے نے جب پوچھا کہ آپ اس پر اپنا منافع کیوں نہیں رکھتیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنی قوم کی مصیبت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتی بلکہ اپنا حصہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

 اب آج ہم اپنے قومی سراپے کا جائزہ لیں کہ دوسروں کو غدار و چور کہنے والوں کی اپنی حب الوطنی کہاں کھڑی ہے؟ خیر جاپانی عورت سے ہم کیا سیکھیں گے کہ ہم نے تو اُس عظیم کتاب سے بھی نہیں سیکھا جس پر ایمان کا ہمارا دعویٰ ہے، اس میں اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ (النساء،29) ہم نے ہادیٔ برحقﷺ کے فرامین کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا، جن سے محبت کے ہم دعویدار ہیں۔

احادیث میں ذخیرہ اندوزی پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ذخیرہ کرنے والا خطا کار ہے، ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ فرمایا، جس شخص نے مسلمانوں کے خلاف غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کی اللّٰہ تعالیٰ اس پر، غربت افلاس اور جذام کی بیماری مسلط کر دے گا۔ (مشکوٰۃ باب الاحتکار) ناپ تول میں کمی کرنا حرام ہے، سورہ مطففین اسی متعلق نازل ہوئی، حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ناپ تول میں کمی کی وجہ سے ہی عذابِ الٰہی کا شکار ہوئی۔

 اب اگر آج کی اس ’مدینہ کی ریاست‘ میں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تو پھر مقروض و مفلوک الحال لوگ خودکشیاں کیوں کر رہےہیں، یہ گھر گھر غربت، مہنگائی و لاچارگی کا کہرام کیوں مچا ہے؟

مزید خبریں :