26 جنوری ، 2020
کراچی میں صنعتی فضلہ اور سیوریج کا پانی سمندری حیات، ماحول اور انسانی جانوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے اور واٹرٹریٹمنٹ (پانی کی صفائی) نہ ہونے کے باعث یومیہ کروڑوں گیلن گندگی سمندر میں گررہی ہے۔
جیونیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے سمندر میں ٹریٹمنٹ کے بغیر گٹریا سیوریج کا گندہ پانی ڈالے جانے کا مجموعی حجم یومیہ 40 کروڑ گیلن سے زائد ہے جب کہ بغیر ٹریٹمنٹ روزانہ 10 کروڑ گیلن صنعتی فضلہ بھی سمندر میں گرتا ہے۔
ماہرین کا کہناہےکہ آلودہ سمندری ہوا کے باعث شہر میں مختلف وبائی امراض بھی پھیل رہے ہیں اور شہر کی 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی الرجی میں مبتلا ہے۔
سیوریج کا گندہ پانی ٹریٹمنٹ کے بغیر براہِ راست سمندر میں ڈالنے سے ایک طرف کراچی کی فضا زہر آلود ہورہی ہے تو دوسری طرف آبی حیات کو بھی زندگی کے لالے پڑگئے ہیں۔
عالمی اداروں کے سروے بتاتے ہیں کہ بحیرہ عرب کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اور اس میں دیگر شہروں کے علاوہ کراچی کا بھی کردار ہے جہاں ہر روز سیوریج کی کروڑوں گیلن گندگی سمندر میں ڈالی جارہی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو کراچی کی سمندری حدود میں پائی جانے والی مچھلیاں کھانے کے قابل نہیں رہیں گی۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ پاکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ کراچی کا سمندر آلودہ ہونے سے کچھوؤں کی تعداد بھی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ آبی پودوں کی افزائش پر نہایت منفی اثرات پڑے ہیں اور ان کی بہت سی اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔
سمندر ملکی صنعت و تجارت کے علاوہ سیرو سیاحت اور شہروں کی خوبصورتی بڑھانے میں بھی اہم کردار کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سمندر اور ساحلی مقامات کو صاف ستھرا اور آلودگی سے بچانے پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے مگر کراچی کا سمندر اور مختلف ساحلی مقامات، بتدریج آلودہ اور گندے ہوتے جارہے ہیں جس کا خمیازہ صرف عوام نہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
بغیر ٹریٹمنٹ روزانہ 10 کروڑ گیلن صنعتی فضلہ بھی سمندر میں گرتا ہے جو ماحول کےلیے باقی 40 کروڑگیلن گندگی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
ہمیں شاید اس کا ادراک نہیں لیکن پاکستانی مصنوعات کے عالمی خریدار اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور خریداری کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے ان کی شرط ہے کہ صنعتی فضلے کو صاف کرکے سمندر میں پھینکا جائے۔
سیوریج کے گندے پانی کا صفائی کے بغیر براہِ راست سمندر میں گرنا، آبی حیات، انسانی صحت اور ہماری معیشت کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے جسے ٹالنے کی کوئی تدبیر نہیں کی جارہی۔
اس مسئلے کے حل کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت نے2007 میں ٹریٹمنٹ کے بڑے منصوبے ایس تھری کی بنیاد رکھی جس کی ابتدائی لاگت 7.98 ارب روپے تھی لیکن یہ منصوبہ التواء میں پڑ گیا۔
اہمیت کے پیش نظر منصوبہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور 36.11 ارب روپے کا بجٹ منظور کروایا گیا لیکن اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ منصوبہ آج بھی سست روی کا شکار ہے۔
اس منصوبے کے تحت ملیر ندی پر 22.72 کلومیٹر اور لیاری ندی پر 33.32 کلومیٹر کی کنڈیوٹ(لائن) تعمیرکی جانی ہے۔
لیاری ندی میں 20 کلومیٹر کی تعمیر ہوچکی ہے جو ٹریٹمنٹ پلانٹس تک جائے گی اور اس میں شہر بھر کی سیوریج لائنز ملائی جائیں گی۔
سندھ کے وزیر برائے بلدیات ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ ٹریٹمنٹ پلانٹ منصوبہ تاخیر کا شکار ضرور ہوا ہے لیکن تاخیر کی وجہ سندھ حکومت نہيں، پوری کوشش ہے کہ یہ منصوبہ اسی سال مکمل کرلیا جائے۔