Time 29 جنوری ، 2020
پاکستان

وسیم اکرم پلس اور بزدار پلس

فوٹو: فائل

میرٹ کا تقاضا ہے کہ جو جس منصب کے لئے سب سے زیادہ اہل ہو، وہ اسے حوالے کیا جائے۔

تو کیا پنجاب اور پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کی تقرریوں میں عدل اور میرٹ سے کام لیا گیا؟ پنجاب کے عثمان بزدار کا معاملہ دیکھ لیجئے۔

بلاشبہ وہ ایک شریف النفس انسان ہیں لیکن کیا وہ سب سے زیادہ تجربہ کار تھے؟ نہیں، کیا وہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے؟ نہیں۔

کیا انہیں سب سے زیادہ اراکین کی تائید حاصل تھی؟ نہیں، بلکہ ان کی تقرری اس بنیاد پر کی گئی کہ جو تجربہ کار اور آزمودہ لوگ تھے، ان میں سے کسی کو وزیراعلیٰ بنانے میں رسک زیادہ تھا۔

دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی سفارش ایک خاص جگہ سے ہوئی اور ان کے ساتھ کچھ توہمات بھی وابستہ ہو گئیں۔

ایک اور خوبی بزدار صاحب کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کی تقرری جہانگیر ترین، گورنر چوہدری سرور اور خود چوہدری پرویز الٰہی وغیرہ کے لئے بھی یوں اچھی ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے سب وزارت اعلیٰ میں اپنے اپنے حصے سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔

تقرری کی بنیاد جو بھی تھی لیکن اب سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال کے بعد بزدار صاحب کے تجربے کے کیا نتائج نکلے؟ کیا انہوں نے شہباز شریف سے بہتر کام کیا؟ نہیں، کیا انہوں نے حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرلی؟ نہیں بلکہ اب صوبے کو عملاً چیف سیکرٹری کے سپرد کیا گیا۔

تو کیا وہ لوگوں میں یا پھر پارٹی میں بہت مقبول ہوگئے؟ نہیں، تو کیا ملک کے طاقتور اور سنجیدہ حلقے ان کے رویے سے مطمئن ہیں؟ نہیں بلکہ طاقتور اور سنجیدہ حلقے جس تقرری پر سب سے زیادہ معترض ہیں، وہ یہی تقرری ہے۔

خلوتوں میں تو پہلے دن سے سر پیٹے جارہے تھے لیکن اب تو نوبت یہاں تک آگئی کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی کھلے عام اظہار کردیا کہ پنجاب سے یا بزدار صاحب کو رخصت کرنا پڑے گا یا پھر یہاں سے پارٹی رخصت ہوگی۔

گویا اس روئے زمین پر بطور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کارکردگی سے صرف دو انسان مطمئن ہیں، ایک کا نام عمران خان اور دوسرے کا نام پردے میں رکھنا زیادہ مناسب ہے۔

اب خیبر پختونخوا کے محمود خان المعروف بزدار پلس کا معاملہ دیکھ لیجئے، ہوا یوں کہ 2013میں جب پی ٹی آئی کو پختونخوا اسمبلی میں حکومت سازی کا موقع ملا تو پارٹی کے ساتھ رفاقت کی بنیاد پر اسد قیصر، شاہ فرمان، شوکت یوسفزئی اور پھر عاطف خان سینئر ترین تھے۔

تب پرویز خٹک نئے نئے پارٹی میں آئے تھے لیکن عمران خان نے پرویز خٹک کی حکومت میں تجربہ کاری کو بنیاد بنا کر وزارت اعلیٰ کے لئے سلیکٹ کیا حالانکہ اسد قیصر 1996سے ان کے ساتھ تھے اور تب وہ پارٹی کے منتخب صوبائی صدر بھی تھے۔

بہ ہرحال آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور آصف علی زرداری کی رفاقت میں حاصل ہونے والے تجربات کی بنیاد پر پرویز خٹک نے مخلوط حکومت کو کامیابی سے چلا کر مختصر عرصہ میں پارٹی اور حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔

پرویز خٹک کی یہ کامیابی خان صاحب کو زیادہ راس نہیں آئی چنانچہ انہوں نے اپنے لاڈلے عاطف خان اور ان کے دست راست شہرام خان کو میدان میں اتارا۔ وہ ان دونوں کے ساتھ ہمہ وقت رابطے میں رہتے۔

عمران خان کی سرپرستی کی وجہ سے پارٹی میں ان کی پوزیشن مضبوط ہوئی، خان صاحب لوگوں کو بتاتے رہتے کہ ان کے اگلے وزیراعلیٰ عاطف خان ہوں گے، اس وجہ سے عاطف خان اور شہرام خان وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور یوں ان کی سیاسی دشمنی کا آغاز ہو گیا۔

اس کیفیت میں 2018کے انتخابات منعقد ہوئے، اب اگر انتخابات شفاف تھے تو پرویز خٹک نے یوں بڑا کارنامہ سرانجام دیا کہ نہ صرف پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں لے آئے بلکہ سیٹوں کی تعداد بھی ڈبل کردی۔

یوں پھر ہر معیار پر وزارت اعلیٰ ان کا حق تھا لیکن عمران خان عاطف خان کو وزیراعلیٰ بنانے پر مصر تھے، اس دوران اسد قیصر بھی امیدوار تھے کیوں کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ 2013میں ان کا حق پرویز خٹک کو دلوایا گیا تھا، اس دوران پرویز خٹک، اسد قیصر اور شاہ فرمان بھی ضد میں آگئے۔

انہوں نے یہ شرط رکھی کہ خان صاحب جس کو بنانا چاہیں بنالیں لیکن عاطف خان کو وہ کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے، اس تنازعے میں محمود خان کی لاٹری یوں نکل آئی کہ مراد سعید نے ان کا نام تجویز کیا، چونکہ مراد سعید نے خود صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا تھا اس لئے اپنے ایم پی اے کو آگے کرکے ان پر خان صاحب کو قائل کرا لیا۔

اب یہاں بھی سوال یہ ہے کہ کیا محمود خان سب سے زیادہ تجربہ کار تھے؟ نہیں، کیا ان کی پارٹی سے وابستگی پرانی تھی؟ نہیں، بلکہ جہانگیر ترین، پرویز خٹک، مراد سعید، اسد قیصر، شاہ فرمان، ارباب شہزاد، تیمور جھگڑا اور اعظم خان وغیرہ کو محمود خان جیسا شریف اور کمزور وزیراعلیٰ اس لئے اچھا لگتا ہے کہ وہ سب اپنی اپنی جگہ وزرائے اعلیٰ ہیں۔

چنانچہ صوبے میں بدانتظامی اور بدحالی کی ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے، تبھی تو محمود خان بزدار پلس کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ پنجاب میں اگر عملاً تین تو پختونخوا میں تقریباً 10 وزرائے اعلیٰ ہیں۔

کرپشن کے قصے عام ہوگئے ہیں، فواد چوہدری صاحب کو شکایت ہے کہ بزدار صاحب نے ترقیاتی فنڈز کا صرف چھ ساتھ فیصد خرچ کیا لیکن خیبر پختونخوا کا یہ عالم ہے کہ بجٹ میں قبائلی اضلاع کے لئے مختص کئے گئے فنڈز میں سے ابھی تک ایک فیصد بھی خرچ نہیں ہو سکا۔

یہ معاملات عاطف خان مسلسل عمران خان کے نوٹس میں لاتے رہے اور وہ کچھ کرتے ہیں کہہ کر ٹرخاتے رہے۔

عاطف خان کو خوش فہمی تھی کہ اب جبکہ پانی سر سے گزر رہا ہے تو عمران خان ان کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرکے محمود خان کو تبدیل کردیں گے اس لئے انہوں نے دیگر وزرا اور ایم پی ایز کو بھی اپنے ساتھ متحرک کیا لیکن اس دوران چونکہ پرویز خٹک اور مراد سعید کی لابی مضبوط ہو گئی تھی اور دوسری طرف پنجاب کے بزدار کے تناظر میں واضح پیغام دینا بھی مقصود تھا اس لئے عمران خان نے عاطف خان اور ان کے ساتھیوں کو قربان کیا۔

ان واضح وجارحانہ پیغامات اور اقدامات کی وجہ سے وسیم اکرم پلس اور بزدار پلس کی حکومتوں کے لئے وقتی خطرات تو ٹل گئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد ان دونوں کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی؟۔

کیا اس کے بعد ان دونوں کی حکمرانی متعلقہ صوبوں اور پی ٹی آئی کی ساکھ کے لئے خطرہ نہیں رہے گے؟ اپنا تو اندازہ ہے کہ پنجاب میں بزدار اور پختونخوا میں بزدار پلس کے قلعے کو مضبوط بنا کر عمران خان نے اپنے قلعے کو کمزور کر لیا، وہ کیسے؟ اس کا جواب پھر کبھی۔

مزید خبریں :