29 جنوری ، 2020
پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ دنوں میں قربتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کے اشارے گزشتہ دنوں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اس وقت ملے جب امریکی صدر نے عمران خان کو نہ صرف اپنا بہترین دوست قرار دیا بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’’پاکستان اور امریکا کے تعلقات آج جتنے قریبی ہیں، اِس سے پہلے کبھی نہیں تھے‘‘۔
ٹرمپ کے اِن تعریفی کلمات نے عمران خان کے ساتھ جانے والے وفد کے اراکین کا سینہ فخر سے چوڑا کردیا اور وزیراعظم نے امریکی صدر سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کیلئے کردار ادا کرنے کی ایک بار پھر درخواست کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان نے جب بھی امریکا سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی ہے، اُس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔
پاکستانی عوام کے ذہنوں میں امریکی صدر اور عمران خان کے درمیان کچھ ماہ قبل امریکا میں ہونے والی ملاقات کی یادیں آج بھی تازہ ہیں جس میں امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی جس سے پاکستان میں یہ تاثر ابھرا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے جارہا ہے مگر بعد ازاں بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ بھارت نے ایسا کرتے وقت امریکا کو اعتماد میں نہ لیا ہو۔
آج کشمیر کا ایشو نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے جبکہ امریکی صدر پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر ایک بار پھر ثالثی کا آسرا اور لالی پاپ دے رہے ہیں تاکہ پاکستان کو امریکی دوستی کا یقین دلایا جاسکے اور سی پیک پر امریکی شرائط منوائی جاسکیں۔
اس امریکی عزائم کے اشارے اُس وقت ملے جب امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے حالیہ دورہ پاکستان میں پاک چین دوستی کے مظہر سی پیک کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ الزام عائد کیا کہ سی پیک منصوبے میں شفافیت نہیں اور پاکستان سی پیک کے نام پر چین کے بچھائے ہوئے قرضوں کے جال میں دن بدن پھنستا جارہا ہے جبکہ ایسی چینی کمپنیاں جنہیں ورلڈ بینک نے بلیک لسٹ کررکھا ہے۔
پاکستان میں سی پیک منصوبے پر کام کررہی ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ کچھ ماہ قبل بھی ایلس ویلز سی پیک اور چین کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنا چکی ہیں تاہم پاکستان میں چین کے سفیر نے اپنے سخت ردعمل میں ایلس ویلز کا بیان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک میں شامل تمام چینی کمپنیاں بین الاقوامی تشخص رکھتی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کو اپنا دوست اور اتحادی کہتا ہے مگر وہ بتائے کہ پاکستان کے موجودہ مشکل حالات میں امریکا نے کیا کردار ادا کیا ہے؟
امریکا اور اُس کے حواری شروع دن سے ہی سی پیک کے مخالف رہے ہیں جن کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح سی پیک منصوبہ تکمیل کے مراحل تک نہ پہنچ سکے مگر اب وہ کھل کر اس منصوبے کی مخالفت پر اتر آئے ہیں اور ایلس ویلز کا حالیہ بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن میں سی پیک کے بارے میں کتنا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
امریکا کا یہ دعویٰ بھی رہا ہے کہ چین پاکستان کو قرضوں کے جال میں پھنسا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کا مجموعی بیرونی قرضہ 110ارب امریکی ڈالر ہے اور آئی ایم ایف اور پیرس کلب سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرضہ دینے والوں میں سرفہر ست ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سی پیک کیلئے چین کا مجموعی قرضہ 5.8امریکی ڈالر ہے جو پاکستان کے مجموعی قرضوں کا 5.3فیصد ہے اور سی پیک کی تکمیل کے بعد پاکستان کی جی ڈی پی میں 2فیصد اضافہ متوقع ہے۔
ہمیں دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ اس طرح کے اشارے ملے کہ حکومت سی پیک کو سست روی کا شکار کرنا چاہتی ہے۔
اس حکومتی ارادے کو تقویت اُس وقت ملی جب مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد کا یہ بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں سی پیک کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’سی پیک منصوبے پر نظرثانی کی جائے گی اور اِسے Slowdownکیا جائے گا‘‘۔
اس حکومتی بیان کے بعد پاک چین تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی تاہم صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چین کا دورہ کیا اور چینی قیادت کے خدشات دور کرتے ہوئے اُنہیں سی پیک منصوبے کو مکمل کرنے کی یقین دہانی کرائی جو یقیناً ایک مثبت قدم تھا۔
پاکستانیوں کی اکثریت کیلئے سی پیک منصوبہ نہ صرف اہمیت کا حامل ہے بلکہ اُنہیں اس منصوبے سے امید ہے کہ سی پیک سے منسلک ’’اسپیشل اکنامک زونز‘‘ میں چینی سرمایہ کاروں کی صنعتوں میں لاکھوں پاکستانیوں کو ملازمتوں کو مواقع میسر آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کیلئے امریکہ کا سخت لفظوں میں سی پیک کی مذمت کرنا قابلِ قبول نہیں۔
حالیہ دنوں میں امریکی صدر کی پاکستان کے ساتھ قربتیں ظاہر کرنے کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ وہ چاہ رہے ہوں کہ پاکستان، چین سے تعلقات میں سرد مہری اختیار کرے اور سی پیک سے باز رہے۔
اگر امریکی صدر پاکستان اور عمران خان سے اتنی ہی قربت ظاہر کرتے ہیں تو اُنہیں اس کا حقیقی ثبوت دینا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکا سے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھانے، FATFمیں سپورٹ کرنے، ٹریول ایڈوائزری کی پابندی کے خاتمے اور سی پیک میں دخل اندازی بند کرنے کا مطالبہ کرے۔
پاکستان اور چین کی دوستی عشروں پرانی ہے اور پاکستان امریکی خوشنودی کی خاطر اپنے آزمائے ہوئے دوست کو کبھی دھوکہ نہیں دے سکتا۔امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات بھی وقت کی اہم ضرورت ہے مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سی پیک کی مخالفت کرنے والا پاکستان کا دوست کبھی نہیں ہو سکتا۔