01 فروری ، 2020
خیبر پختونخوا میں چین سے پھیلنے والے خطرناک کورونا وائرس کا پہلا مشتبہ کیس سامنے آیا ہے۔
ضلع سوات کے علاقے اوڈیگرام سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ بائیو میڈیکل انجینئر یاسر میں کورونا وائرس کا شبہہ کیا گیا ہے جس کا چین آنا جانا لگا رہتا تھا۔
محکمہ صحت کے پی ذرائع کے مطابق یاسر کا علاج کے باوجود بخار اور زکام ٹھیک نہیں ہو رہا تھا جب کہ اس کے خون کے سفید خلیوں (وائٹ سیلز) میں کمی آ رہی تھی جس پر یاسر کو سیدو شریف ٹیچنگ اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں داخل کیا گیا۔
محکمہ صحت نے بتایا کہ مریض یاسر کے نمونے قومی ادارہ صحت اسلام آباد بھجوا دیئے گئے ہیں۔
کورونا وائرس کا مشتبہ کیس سامنے آنے کے بعد ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اکرام شاہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں اسپتال میں ہنگامی بنیادوں پر 10 بستروں پر مشمتل آئسولیشن وارڈ قائم کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مشتبہ مریض یاسر چین کا سفر کرتا رہا ہے جو دو ماہ کے دوران جنوبی وزیرستان، لاہور اور کرک کا دورہ بھی کر چکا ہے۔
دو روز قبل کراچی کے علاقے لیاری کا رہائشی ارسلان بھی چینی شہر ووہان سے بخیرو عافیت اپنے گھر واپس پہنچا تھا جس میں کورونا وائرس کی علامات نہیں پائی گئیں تاہم اس کے خون کے سیمپلز بھی قومی ادارہ صحت اسلام آباد بھجوائے گئے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرس ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سینڈروم (سارس) جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاؤ اور گربہ زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سے انسانوں میں منتقل ہوا جب کہ مرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہو سکتے ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری انفلوئنزا یا فلو جیسی ہی ہے اور اس سے ابھی تک اموات کافی حد تک کم ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہئیں۔