02 فروری ، 2020
فلسطینیوں کے ساتھ اس صدی کے سب سے بڑے فراڈ (جسے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے صدر ٹرمپ کے مجوزہ فارمولے کو ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے) کا ہماری عقاب نظر دوست شیریں مزاری نے اپنے دی نیوز کے مضمون میں خوب بھانڈا پھوڑا ہے۔
پہلی بار ہم امن کی فاختائوں کو ایک عقاب کی رائے من بھائی، ابھی گزشتہ ہفتے یہودیوں کے ساتھ ہوئے بہیمانہ خون خرابے (Holocaust) کی 70ویں شامِ غریباں جو آشوئز کے نازی کیمپ میں قتل کیے گئے 11لاکھ یہودیوں کو یاد کرنے کے لیے منائی گئی، تو دل خون کے آنسو رو دیا تھا۔
فسطائیت اور نسلی تطہیر کتنی خوفناک ہوتی ہے، اس کے لیے ہولوکاسٹ کو یاد کیے رکھنا بہت ضروری ہے، ویسے ہی جیسے ہم مسلمان کربلا کے شہیدوں اور خونِ حسینؓ کو یاد کرتے ہیں اور یزیدیت پہ لعنت بھیجتے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم میں نازی ازم کی شکست کے بعد مظلوم یہودیوں کے لیے پناہ گاہ ڈھونڈی بھی گئی تو قدیم عہدنامہ عتیق کی بھولی بسری یادوں کو تازہ کرتے ہوئے جس کے لیے صہیونی مبلغین ایک عرصہ سے اسرائیل لوٹنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔
فتح یاب اتحادی قوتوں نے مغرب ہی کے گناہ (Holocaust) کا ازالہ کیا بھی تو ایک نوآبادیاتی آبادکار ریاست کی تشکیل دے کر، تب سے حضرت ابراہیمؑ کی اولادیں پھر سے باہم دست و گریباں ہیں۔
پہلے یہودی دربدر پھرتے تھے، اب فلسطینی مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی پرسانِ حال نہیں، فلسطینیوں کی قومی مزاحمت بیسویں اور اکیسویں صدی کی طویل ترین خونچکاں کہانی ہے، وطن سے بےوطن ہوئے فلسطینی وادیٔ اُردن کے مغربی کنارے غزہ اور شام کی گولان کی بلند پہاڑیوں میں دبک کے بیٹھ رہے۔
پھر 1967کی اسرائیل عرب جنگ میں عربوں خاص طور پر مصر اور شام کی شکست کے بعد اسرائیلی توسیع پسندی کے ہاتھوں وادیٔ اُردن، مغربی کنارہ اور غزہ کے علاقے اسرائیل کے تسلط میں آ گئے اور مہاجر فلسطینی مزاحمت کے باوجود یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو مقبوضہ علاقوں میں پھیلتا دیکھتے رہ گئے۔
فلسطینی مزاحمت بھی دیدنی تھی، الفتح بنی جس کے قائد یاسر عرفات نے دیگر مزاحمتی تنظیموں کو ساتھ ملا کر فلسطینی محاذِ آزادی کی تشکیل کی اور مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پہ فلسطینی نیم آزاد ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی۔
اِس عرصہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا خون بہتا رہا اور اپنوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، 1967میں اُردن میں فلسطینیوں کا قتلِ عام ہوا جس کی کمان بریگیڈیئر ضیاء الحق کے ہاتھ میں تھی، پھر لبنان میں شیتلا اور دیگر کیمپوں میں فلسطینیوں کو تہِ تیغ کیا گیا اور یہ سلسلہ کبھی تھما نہیں۔
پہلے مصر نے کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے اور اُردن سمیت کئی عرب ملکوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے، فلسطین کے مسئلہ پر او آئی سی ہو یا عرب لیگ دونوں کسی بھی طرح فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں۔ 1946سے اب تک یو این کی جنرل اسمبلی کی 700قراردادیں اور سلامتی کونسل کی 100 قرار دادیں فلسطینیوں کو اُن کا جائز حق دلوانے میں ناکام رہی ہیں۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ہونے والے امن مذاکرات میں اوسلو معاہدے میں جو اُصول طے کیے گئے تھے اگر اُن پر عمل کیا جاتا تو دو ریاستیں فلسطین اور اسرائیل پُرامن بقائے باہم کے اُصولوں پہ ساتھ ساتھ ہنسی خوشی بس رہی ہوتیں۔
لیکن ایسا نہ ہو سکا، یاسر عرفات کی موت کے بعد فلسطینی تقسیم ہو گئے، پی ایل او مغربی کنارے اور حماس غزہ کی پٹی پہ حاوی ہو گئی، 17برس سے فلسطینی اتھارٹی کے انتخابات التوا میں ہیں، وہ برسرِ پیکار اور مالی اعتبار سے عرب شیوخ کے مرہونِ منت ہیں جبکہ عرب حکمران امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اسرائیل سے پینگیں بڑھا رہے ہیں۔
اب مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی ہو چکی ہے اور خلیجی حکمران ٹرمپ کے اتحادی ہیں، جب ٹرمپ صدر بنے تو اُنہوں نے امریکہ میں پی ایل او کا سفارتخانہ بند کر دیا، امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا اور فلسطینی اتھارٹی کی ہر طرح کی مالی امداد بند کر دی گئی۔
اپنے داماد یہودی النسل کشنر کو فلسطینی اسرائیلی جھگڑے کے حل کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کیا، عین اُس وقت جب صدر ٹرمپ کے خلاف سینیٹ میں مواخذے کی تحریک زیرِ سماعت ہے اور دوبارہ منتخب ہونے کے لیے انہیں امریکہ میں مضبوط یہودی لابی کی حمایت درکار ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو تیسرے وسط مدتی انتخابات کا چیلنج درپیش ہے، ٹرمپ پلان کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
یہ ٹرمپ پلان اوسلو معاہدے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور ’’دو ریاستی حل‘‘ کے عالمی اتفاقِ رائے سے بالکل اُلٹ ہے، اس پلان کے تحت سارا یروشلم، وادیٔ اُردن، مغربی کنارے کا ایک تہائی حصہ اسرائیل کے مستقل قبضے میں جائے گا، نیز یہ کہ فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت، انسانی و شہری حقوق اور ریاستی خودمختاری اسرائیل کے پاس رہن رہے گی۔
چونکہ یہ پلان یکطرفہ اور کُلی طور پر صہیونی تصور کے مطابق ہے، یہ اسرائیل کے جمہوری اور سیکولر مستقبل کے لیے کارآمد ہوگا نہ فلسطینیوں کو کسی طور پر قابلِ قبول ہوگا، جہاں یہ قدامت پسند یہودیوں اور انتہاپسند صہیونیوں کے نظریے کو تقویت دیتے ہوئے اسرائیل کو ایک مذہبی ریاست کی طرف دھکیلے گا، وہیں پہ فلسطینیوں جو ابھی تک سیکولر قومی مزاحمت کے قائل ہیں، کو مذہبی انتہاپسندی پہ مائل کرے گا۔
گو کہ خلیجی شیوخ چاہیں گے کہ فلسطینی کسی طور پر اس پلان سے ملتے جلتے حل پہ راضی ہو جائیں، ترکی اور ایران اور ملائیشیا اس کی مخالفت میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ ایک بڑا مسئلہ فلسطینیوں کی باہم تقسیم کا ہے۔
حماس کو اپنا علیحدہ وجود ختم کرکے پی ایل او میں شامل ہو جانا چاہیے اور مسئلے کے پُرامن حل کے لیے ایک نئی متحدہ انتفادہ کی تیاری کرنی چاہیے۔ تشدد سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا اور حماس کی ملیٹینسی (militancy) سے سفارتی حمایت میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔
متحدہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے انتخابات کا انعقاد اور نئی جمہوری قیادت فلسطینیوں کے مستقبل کی جدوجہد کے لیے نہایت ضروری ہوگی۔
عمران خان کی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ شیریں مزاری کے تجزیہ سے استفادہ کرتے ہوئے، کشمیر پہ ٹرمپ کی ثالثی سے باز رہیں، ٹرمپ کا کشمیر پہ ممکنہ فارمولہ اُس کے فلسطین کے فارمولے سے مختلف نہیں ہوگا۔