02 فروری ، 2020
مُلکِ شام کے قریب’’ دومۃ الجندل‘‘ کا عیسائی حاکم مدینہ منوّرہ پر حملے کے لیے لشکر تیار کر رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے اُس کی فوری سرکوبی کا فیصلہ فرمایا اور ایک ہزار صحابہؓ کے لشکر کے ساتھ دومۃ الجندل روانہ ہوگئے۔ مدینے سے وہاں کا فاصلہ پندرہ راتیں تھا۔ احتیاط کے تقاضوں کے پیشِ نظر مسلمانوں کا لشکر رات کو سفر کرتا اور دن میں پہاڑوں میں روپوش ہو جاتا۔ ایک رات کا سفر باقی تھا کہ اُن لوگوں کو مسلمانوں کی فوج کی آمد کی اطلاع ملی۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مسلمان اتنی طویل مسافت طے کر کے اُن کے سَروں پر آ پہنچیں گے۔ لہٰذا وہ افراتفری کے عالم میں اپنے مال مویشی چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آپؐ نے حسبِ روایت وہاں چند دن قیام فرمایا۔
یہودیوں کے قبیلے خزاعہ کا ایک خاندان بنی المصطلق کہلاتا تھا۔ وہ قریش کے قبیلے بنی مدلج کا حلیف تھا اور مدینے سے 9 میل کی مسافت پر’’مریسیع‘‘ میں اُن کی رہائش تھی۔ رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو مصطلق کا سردار کفّارِ مکّہ کے ساتھ مل کر مدینے پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔اس پر آپؐ ایک لشکر کے ساتھ مریسیع روانہ ہو گئے۔ اس مرتبہ لشکرِ اسلام میں رئیس المنافقین، عبداللہ بن اُبی بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ شامل تھا۔ مسلمان مریسیع پہنچ کر ایک چشمے کے قریب خیمہ زن ہو گئے۔
حارث اور اُس کے قریشی ساتھیوں نے جب اسلامی لشکر کو اپنے اتنے قریب پایا، تو بدحواس ہو کر بھاگ نکلے، جب کہ اُن کے قبیلے والوں نے مسلمانوں سے لڑائی کی، جس میں اُنھیں شکست ہوئی۔ اُن میں سے کچھ بھاگ گئے، کچھ قتل ہوئے اور کچھ گرفتار ہوئے۔ گرفتار شدگان میں قبیلے کے سردار حارث کی نوجوان بیٹی جویریہ بھی شامل تھیں، جنہیں بعدازاں نبی کریمﷺ کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ عبداللہ بن اُبی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے، اُنہیں لڑانے اور زِچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔
ایک صبح چشمے سے پانی بَھرنے کے دوران ایک انصار اور مہاجر کے درمیان ہونے والی معمولی تلخ کلامی نے جھگڑے کی سی صُورت اختیار کر لی۔ عبداللہ بن اُبی نے اس معاملے کو بڑھاوا دیا۔ وہ انصار سے مخاطب ہوا ’’یہ مصیبت تم لوگوں نے خود اپنے گلے کا ہار بنائی ہے۔ تم لوگوں نے ان مہاجرین کی دست گیری کر کے اتنا منہ زور کر دیا کہ اب یہ تمھیں آنکھیں دِکھانے لگے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ان سب کو مدینے سے باہر نکلنے پر مجبور کر دو۔‘‘ سیّدنا عُمر فاروقؓ کو اطلاع ملی، تو آنحضرتﷺ سے فرمایا’’ یارسول اللہﷺ! اجازت دیں، تو اس منافق کی گردن اُڑا دوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ اے عُمرؓ! کیا تم یہ بات پسند کرتے ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ محمّد(ﷺ) تو اپنے ساتھ والوں کو قتل کر دیا کرتے ہیں؟‘‘ عبداللہ بن اُبی کے بیٹے، حضرت عبداللہؓ، آنحضرتﷺ کے جاں نثاروں میں شامل تھے اور اس لشکر میں موجود تھے۔
جب اُنہیں اطلاع ملی، تو خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! پورا مدینہ واقف ہے کہ مَیں اپنے باپ کا کس قدر خدمت گزار ہوں، لیکن اگر آپؐ حکم دیں، تو اُن کا سَر کاٹ کر لے آئوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’نہیں، مَیں قتل کی بجائے اُس پر مہربانی کروں گا۔‘‘ اسی غزوے سے واپسی پر واقعۂ افک پیش آیا، جس میں عبداللہ بن اُبی نے سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے قافلے سے پیچھے رہ جانے پر تہمت لگائی، جو رسول اللہﷺ، اُمّ المومنینؓ اور تمام مسلمانوں کے لیے شدید اذیّت کا باعث بنی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النّور کی آیات نازل فرما کر حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کا اعلان کیا۔
غزوۂ مصطلق ہی کے سفر میں حضرت عائشہؓ کا ہار کہیں کھو گیا، جسے ڈھونڈنے کے لیے قافلے کو رُکنا پڑا۔ نماز کا وقت آیا، تو پانی نہ ملا۔ صحابہ کرامؓ وضو کے لیے پریشان تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آیاتِ تیمّم کا نزول فرمایا۔ حضرت سعید بن حضیرؓ نے کہا’’اے آلِ ابوبکرؓ! تم لوگوں کے لیے سرمایۂ برکت ہو۔‘‘
ایک دن حئی بن اخطب بیس نام وَر یہودی سرداروں کو لے کر کفّارِ مکّہ کے پاس پہنچا اور اُن سے مدینے پر چڑھائی کی بات کی۔ قریش فوراً راضی ہو گئے۔ پھر یہ لوگ بنو غفان، بنو سلیم، بنو سعد سے ملے۔ غرض کہ اُنہوں نے پورے عرب میں مسلمانوں کے خلاف جنگ کی فضا پیدا کر کے دس ہزار جنگ جُوئوں پر مشتمل لشکر تیار کر لیا۔ اس متحدہ فوج میں ساڑھے چار ہزار اونٹ اور تین سو گھوڑے تھے، جب کہ سامانِ حرب کا تو شمار ہی نہ تھا۔ ایک صبح یہ لشکر ابو سفیان کی قیادت میں مدینے کی جانب روانہ ہو ا۔ اللہ کے رسولﷺ کو اس پیش قدمی کی اطلاع ملی، تو آپؐ نے فوری طور پر مجلسِ شوریٰ کا اجلاس طلب کر لیا۔
حضرت سلمان فارسیؓ نے مشورہ دیا کہ’’ ہم فارس میں ایسے موقعے پر اپنے گرد خندق کھود لیا کرتے تھے، اس طرح فوج ہم تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔‘‘ سرکارِ دوعالمؐ نے اس تجویز کو پسند فرمایا۔ مدینے کے تین جانب مکانات اور باغات تھے، جو شہر کی حفاظت کا کام دیتے تھے، صرف ایک رُخ کُھلا تھا۔ آنحضرتﷺ تین ہزار صحابہؓ کے ساتھ وہاں پہنچے اور دس، دس گز زمین دس، دس صحابہؓ میں تقسیم فرما دی۔ اس طرح چھے روز میں صحابہؓ نے ساڑھے تین میل لمبی، پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری خندق کھود ڈالی۔ خندق کی کھدائی کے دوران پتھر کی ایک سخت چٹان آ گئی، جو کسی طور ٹوٹنے کا نام نہ لیتی تھی۔ حضرت براءؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ ہم نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ ؐ تشریف لائے، کدال لی اور’’ بسم اللہ‘‘ کہہ کر ضرب لگائی، تو ایک ٹکڑا ٹوٹ گیا۔آپؐ نے فرمایا’’اللہ اکبر! مجھے مُلکِ شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ واللہ! مَیں اِس وقت وہاں کے سُرخ محلوں کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر دوسری ضرب لگائی، تو ایک اور ٹکڑا کٹ گیا۔
آپؐ نے فرمایا’’اللہ اکبر! مجھے فارس دیا گیا ہے۔ واللہ! مَیں اِس وقت مدائن کا سفید محل دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر تیسری ضرب لگائی اور فرمایا’’بسم اللہ‘‘ تو باقی چٹان بھی کٹ گئی۔ پھر فرمایا’’اللہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں، واللہ! مَیں اِس وقت اپنی اس جگہ سے صنعاء کے پھاٹک دیکھ رہا ہوں‘‘(مسندِ احمد، فتح الباری)۔حضرت جابر بن عبداللہؓ نے نبی اکرمؐ میں بھوک کے آثار دیکھے، تو بکری کا ایک بچّہ ذبح کیا اور اُن کی بیوی نے تقریباً ڈھائی کلو جو پِیسا۔ پھر رسول اللہﷺ سے رازداری کے ساتھ گزارش کی کہ اپنے چند رفقاء کے ساتھ تشریف لائیں، لیکن نبی کریمﷺ تقریباً ایک ہزار صحابہؓ کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ سب نے اس مختصر سے کھانے سے شکم سیر ہو کر کھایا، پھر بھی گوشت کی ہانڈی اور آٹا اپنی حالت پر برقرار رہے(صحیح بخاری)۔
8ذی القعدہ کی صبح آپؐ نے مسلمان عورتوں اور بچّوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم فرمایا اور تین ہزار مجاہدین کے ساتھ روانہ ہوگئے۔دوسری طرف، کفّار کا دس ہزار جنگ جُوئوں پر مشتمل لشکر بھی آگے بڑھ رہا تھا۔ کفّار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک بڑی خلیج اُن کی منتظر ہے۔ جب خندق نے اُن کے بڑھتے قدم روکے، تو انگشت بدنداں رہ گئے۔ وہ اس طرح کی حفاظتی حکمتِ عملی سے قطعی طور پر لاعلم تھے۔ ہزاروں کا لشکر بے بسی سے خندق کے سامنے کھڑا تھا۔ اُن کے سردار غیظ و غضب کے عالَم میں خندق کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ مسلمان بھی اُن کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے تھے اور تیروں کی بوچھاڑ سے اُنہیں خندق سے دُور کرتے جاتے تھے۔
یہ سلسلہ اسی طرح جاری تھا کہ ایک صبح عمرو بن عبدو، ضرار بن خطاب اور عکرمہ بن ابی جہل نے ایک تنگ جگہ سے خندق پار کر لی، اُن میں عمرو بن عبدو بہادری اور شجاعت میں عرب کا ناقابلِ شکست جنگ جُو تھا۔ اُس نے جب حضرت علیؓ کو دیکھا، تو مقابلے کے لیے للکارا۔ حضرت علیؓ نے اُس90سالہ جنگی ہیرو کو ایک ہی وار میں زمیں بوس کر دیا، جب کہ اُس کے باقی ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ سردی کی سخت ترین راتیں تھیں۔ اُن کے مال مویشی مرنے لگے اور محاصرہ ٹوٹنے کی کوئی صُورت نظر نہ آتی تھی۔ اب بے زاری اور پریشانی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔ ایسے میں اُنھیں صرف ایک ہی اُمید تھی کہ مسلمانوں کے حلیف بنی قریظہ کو غدّاری پر آمادہ کیا جائے۔ یہ یہودی قبیلہ مدینے کے جنوب مشرقی کونے میں رہتا تھا اور معاہدے کی رُو سے مسلمانوں کے دشمنوں سے جنگ کا پابند تھا۔
اسی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے اہل و عیّال اُن کے قلعوں کے قریب منتقل کیے تھے۔ کفّار نے یہودی سردار حئی بن اخطب کو اپنا نمائندہ بنا کر اُن لوگوں کے پاس بھیجا۔ پہلے تو بنی قریظہ نے اُنہیں صاف جواب دے دیا، لیکن پھر حئی بن اخطب کے مسلسل اصرار اور سبز خوابوں کے جال میں پھنس کر یہودی ذہنیت اُن پر غالب آ گئی اور وہ معاہدے سے انحراف پر راضی ہو گئے۔ رسول اللہﷺ کو اس غدّاری کی اطلاع ملی، تو آپؐ نے انصار سرداروں سعدؓ بن محاز، عبداللہؓ بن رواحہ، سعدؓ بن عبادہ اور خواتؓ بن جبیر کو فوری طور پر اُن کے پاس بھیجا۔ تاہم، بنو قریظہ نے معاہدے کے وجود ہی سے انکار کردیا۔ یہ خبر مسلمانوں کے لیے بے حد اضطراب و پریشانی کا باعث بنی، کیوں کہ سب کے اہل و عیّال اُسی جانب تھے۔
تاہم، منافقین کے لیے یہ اطلاع خوش آئند تھی اور اُنہوں نے افواہوں کا طوفان کھڑا کر دیا۔ جنگ اور محاصرے کے دَوران یہ نازک لمحات آنحضرتؐ کے لیے فکر مندی اور تشویش کا باعث تھے، لیکن پھر اللہ نے اپنے محبوبﷺ کو جلد ہی اس پریشانی سے نجات کا انتظام کر دیا۔ قبیلہ غطفان کے ایک بااثر یہودی رئیس نعیم بن مسعود نے آنحضرتؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ نعیم بن مسعود کے بنو قریظہ اور کفّارِ مکّہ کے اکثر سرداروں سے قریبی تعلقات تھے۔ اُن کے اسلام لانے کا علم ابھی اُنھیں نہیں ہوا تھا، چناں چہ اُنھوں نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت بنو قریظہ اور قریش کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا، جس سے کفّار کے حوصلے چکنا چُور ہوگئے۔ محاصرے کو27روز گزر چُکے تھے کہ ایک رات تندوتیز آندھی نے مشرکین کے پنڈال میں تباہی مچا دی۔ خیمے اُکھڑ کر دُور جا گرے۔ اونٹ اور گھوڑے رسیاں تُڑوا کر بھاگ نکلے اور اُن کے کھانے پینے کا سامان ضائع ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کا قرآنِ کریم میں ارشاد ہے’’اے ایمان والو! اللہ کے اُس احسان کو یاد کرو، جو اُس نے تم پر کیا، جب کہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں، پھر ہم نے اُن پر تیز و تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے، جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں‘‘(سورۃ الاحزاب)۔ مشرکین طویل محاصرے سے پہلے ہی بے زار ہو چُکے تھے، اس قدرتی آفت و تباہی نے اُن کے عزائم ملیا میٹ کر دئیے، لہٰذا اُنہوں نے واپس مکّہ جانے ہی میں عافیت محسوس کی۔
رسول اللہﷺ غزوۂ خندق سے واپسی پر گھر تشریف لائے۔ ظہر کا وقت تھا، آپؐ نے غسل فرمانے کا ارادہ کیا کہ اتنے میں حضرت جبرائیل امینؑ تشریف لائے اور کہا’’اے اللہ کے رسولﷺ! مَیں فرشتوں کی جماعت کے ساتھ بنو قریظہ کی جانب جا رہا ہوں تاکہ اُن کے قلعوں میں زلزلہ برپا کروں اور اُن کے دِلوں میں رُعب ڈالوں۔ آپؐ بھی صحابہؓ کے ساتھ وہاں پہنچ جائیں۔‘‘رسول اللہؐ نے اُسی وقت منادی کروا دی کہ مسلمان عصر کی نماز بنو قریظہ میں پڑھیں گے۔آپؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ بنو قریظہ کی جانب روانہ ہو گئے۔
مسلمانوں کا پہلا دستہ وہاں پہنچا، تو یہودیوں نے قلعے کی فصیلوں سے اُنھیں بُرا بھلا کہنا اور پتھرائو شروع کر دیا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی۔آنحضرتؐ نے قلعوں کے محاصرے کا حکم دے دیا۔ کچھ ہی دنوں میں محاصرے کی سختی اُن لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئی اور اُن کے پاس ہتھیار ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے اُن کے دِلوں میں مسلمانوں کا رُعب اور ہیبت پیدا کر دی تھی، چناں چہ اُن سب نے ہتھیار ڈال دیئے اور قلعوں سے باہر نکل آئے۔ مسلمانوں نے خواتین اور بچّوں کو چھوڑ کر باقی سب کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے۔
بعدازاں، قبیلہ اوس کے لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’ یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ کچھ نرمی کا معاملہ کیا جائے۔‘‘ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’کیا ان کا معاملہ تمہارے سردار سعدؓ بن محاز کے سُپرد کر دوں؟ وہ جو چاہیں فیصلہ کریں۔‘‘ حضرت سعدؓ بن محاز نے فیصلہ دیا کہ’’ یہ لوگ غدّاری کے مرتکب ہوئے ہیں اور غدّار کی سزا موت ہے۔ لہٰذا، ان کے تمام مَردوں کو قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچّوں کو قید کر دیں اور مالِ غنیمت تقسیم کر دیا جائے۔‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’تمہارا فیصلہ، اللہ کے فیصلے کے مطابق ہے۔‘‘بعدازاں فیصلے پر عمل درآمد کردیا گیا۔
سلام بن ابی الحقیق یہودیوں کے اکابرین میں تھا۔ اپنی خباثت بَھری ذہنیت، منافقانہ طبیعت اور اسلام دشمنی میں خاصا بدنام تھا۔ صاحبِ ثروت ہونے کی بنا پر مسلمانوں کی مخالفت میں دِل کھول کر خرچ کرتا اور آنحضرتؐ کو ایذا پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ قبیلہ خزرج کے لوگوں نے آنحضرتؐ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی۔ اس سے پہلے قبیلہ اوس نے کعب بن اشرف کو قتل کیا تھا، چناں چہ قبیلہ خزرج کے لوگ بھی اس طرح کا کوئی کارنامہ انجام دینے کے خواہش مند تھے۔ آپؐ نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ بچّوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے، لہٰذا پانچ صحابیؓ ،حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی قیادت میں خیبر روانہ ہوئے، جہاں سلام بن ابی الحقیق کا قلعہ تھا۔
یہ لوگ جب قلعے کے سامنے پہنچے، تو شام ہو چُکی تھی۔ حضرت عبداللہ بن عتیکؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا’’ تم لوگ کہیں چُھپ جائو۔ مَیں قلعے کے اندر جانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور دروازے کے قریب سَر پر کپڑا ڈال کر اِس طرح بیٹھ گئے، جیسے رفعِ حاجت سے فارغ ہو رہے ہوں۔ پہرے دار نے اُنہیں دیکھ کر آواز لگائی’’ جلدی اندر آ جا، ورنہ دروازہ بند کر رہا ہوں۔‘‘ حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں’’ یہ سُنتے ہی مَیں ویسے ہی سَر جُھکائے اندر گھس گیا۔ پہرے دار نے دروازہ بند کیا اور چابیاں کھونٹی پر لٹکا کر آگے بڑھ گیا۔ مَیں خاموشی سے چُھپا رات گہری ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ مجھے اندازہ تھا کہ ابو رافع یعنی سلام بالاخانے میں رہتا ہے، چناں چہ مَیں نے چابیاں اُٹھائیں اور احتیاط کے ساتھ تالے کھول کے اوپر پہنچ گیا۔ وہ اپنے بچّوں کے ساتھ ایک تاریک کمرے میں تھا۔ مَیں نے اُسے آواز دی’’ ابو رافع‘‘، اُس نے کہا’’ کون ہے؟‘‘ مَیں نے جَھٹ آواز کی طرف لپک کر تلوار کی ایک ضرب لگائی، جس پر اُس نے چیخ ماری۔
مَیں جلدی سے باہر نکل آیا۔ کچھ توقّف کے بعد مَیں پھر اندر گیا اور آواز بدل کر بولا’’ ابو رافع! یہ کیسی آواز تھی؟‘‘ اُس نے کہا’’ مجھ پر کسی نے وار کیا ہے؟‘‘ اُس کا یہ کہنا تھا کہ اس مرتبہ مَیں نے بھرپور ضرب لگائی۔ وہ خون میں لت پت ہو کر گرا، تو مَیں نے اُس کے پیٹ میں تلوار گُھسا دی۔ مَیں تیزی سے وہاں سے نکلا، لیکن سیڑھیاں اُترتا ہوا گر پڑا اور میری پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی، جسے اپنی پگڑی سے کَس کر باندھ لیا اور صبح کا انتظار کرنے لگا تاکہ اُس کی موت کا اعلان سُن کر جائوں۔
صبح جب مرغ نے بانگ دی، تو قلعے کی فصیل سے اہلِ حجاز کے تاجر، ابو رافع کی موت کا اعلان ہوا۔ مَیں نے اللہ کا شُکر ادا کیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ کر اُن کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے میری ٹوٹی ہوئی پنڈلی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا، جس سے میری ٹانگ صحیح ہو گئی اور تکلیف جاتی رہی‘‘ (صحیح بخاری)۔
رسول اللہﷺ نے حضرت محمّد بن مسلمہؓ کی قیادت میں30سواروں کے ایک دستے کو قرطاء کی جانب روانہ کیا، جہاں کے باشندے علاقے میں لُوٹ مار کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے جب اُن کے مقام پر چھاپہ مارا، تو اُن کا ایک گروہ مقابلے پر آیا اور قتل ہوا، جب کہ باقی مال مویشی چھوڑ کر پہاڑوں کی جانب بھاگ نکلے۔ (جاری ہے)