03 فروری ، 2020
کورونا نامی وائرس سے نہ صرف چین کی دیوہیکل معیشت لڑکھڑا گئی ہے بلکہ اس نے عالمی معاشی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، امید ہے کہ جلد یا بدیر اس وائرس کو کنٹرول کر لیا جائے گا اور چین سمیت دیگر ممالک اس کے معاشی اثرات سے نکل آئیں گے۔
اس تھیوری پر بات کرنا کیا مناسب ہوگا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آج کی دنیا میں یہ ممکن ہی نہیں کہ خطرناک بیماریوں کا وائرس پھیلانا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ نہ ہو، کیونکہ بعض تاریخی واقعات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دنیا کے کچھ ملکوں میں جان بوجھ کر خطرناک وائرس پھیلایا گیا اور اس وائرس کے ذریعے نہ صرف نسل کشی کی گئی۔
اس ملک کی معیشت کو تباہ کیا گیا بلکہ اس وائرس کو کنٹرول کرنے کیلئے بعض کثیر القومی کمپنیوں نے دوائیں بیچ کر اس ملک کی دولت لوٹی اور دیگر کثیر القومی کمپنیوں نے دیگر طریقوں سے اس ملک کے وسائل کی بےدریغ لوٹ مار کی۔
اسے ’بائیو وار فیئر‘ یا حیاتیاتی جنگ کا نام دیا جاتا ہے، جنوبی افریقہ میں 1960ء اور 1980ء کے عشرے کے دوران بڑے پیمانے پر ایڈز وائرس پھیلنے کے اسباب پر اب زیادہ تر ماہرین اور دانشور متفق ہیں کہ افریقہ کی ہیرے، جواہرات اور سونے کی کانوں پر قبضہ کرنے کیلئے یہ خطرناک وائرس پھیلایا گیا۔
کثیر القومی فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے نہ صرف دوائیں مہنگی فروخت کرکے دولت سمیٹی بلکہ دیگر سامراجی کمپنیوں نے وہاں کے لوگوں کو ایڈز میں الجھا کر ان کے ہیرے، جواہرات اور سونا اپنے تصرف میں لیا۔
امریکہ اور چین کے مابین جاری تجارتی جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا چین میں یہ وائرس مصنوعی طور پر پھیلایا گیا ہے؟ یہ سوال اس لئے ذہن میں پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں وائرس پھیلنے کے بےشمار واقعات ہوئے لیکن چین کے حریفوں نے حالیہ کورونا وائرس کے حوالے سے جو پروپیگنڈا کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔
پوری دنیا کے ذہنوں میں یہ بات آرہی ہے کہ تجارتی اور معاشی جنگ میں چین کا مقابلہ صرف ’بائیو وار فیئر‘ سے ہی ہو سکتا ہے مگر دنیا اس حقیقت سے بھی واقف ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس صرف چین میں ہی نہیں بلکہ امریکا سمیت دنیا کے 30سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے۔
دنیا یہ بھی سمجھتی ہے کہ چین اگرچہ روایتی اور ہتھیاروں والی جنگ کے بغیر دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بائیو وار فیئر کے ساتھ ساتھ روایتی اور جوہری جنگ کیلئے بھی اپنے آپ کو تیار کیے ہوئے ہے۔
لہٰذا اگر چین کے خلاف بائیو وار فیئر شروع کی گئی تو پھر چین کے حریف بھی اس جنگ سے باہر نہیں رہ سکتے، اب کورونا وائرس کے چین کی معیشت پر اس وائرس سے ہونے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
دنیا کے اکثر ملکوں نے چین سے آنیوالے درآمدی سامان کو ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر روک لیا ہے، اس سے چین کی نہ صرف صنعتی پیداوار بند ہو گئی ہے بلکہ برآمدی سامان سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ بھی رک گیا ہے۔
دنیا میں یہ خوف پیدا کر دیا گیا ہے کہ چین سے آنے والا سامان اور ہر فرد کورونا وائرس کا کیریئر ہے، یہ تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ اگر کورونا وائرس آئندہ مارچ تک کنٹرول نہ ہوا تو چین کی معیشت کو 100ارب ڈالرز سے زائد خسارہ ہو سکتا ہے اور چین کے جی ڈی پی کی شرح 4فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
یہ چین کی معیشت کی ترقی کو روکنے کیلئے ایٹم بم جیسا حملہ ہوگا، دوسری طرف چین کے حریفوں کو بھی خوش نہیں ہونا چاہئے کیونکہ چین کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کو کنٹرول کرنے کیلئے جو اقدامات کر رہا ہے، وہ امریکہ سمیت دنیا کا کوئی ملک نہیں کر سکتا۔
حیاتیاتی اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس 2003ء میں پھیلنے والے ’سارس‘ وائرس سے کم خطرناک ہے۔
سارس وائرس نے بھی چین میں بہت تباہی پھیلائی تھی لیکن چین نے اس وائرس کی تباہ کاریوں کو صرف چھ ماہ میں کنٹرول کر لیا تھا جبکہ دیگر ممالک اس وائرس کی تباہی اور معاشی اثرات سے کئی برسوں تک نہیں نکل سکے تھے۔ پاکستان کے پالیسی ساز اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ لیکن ہماری معیشت کا انحصار چین پر بڑھ گیا ہے۔
عام ضرورت کی اشیا کیساتھ ساتھ سبزی اور پھلوں کی چین سے جو سستی درآمدات ہو رہی ہیں انہوں نے پاکستان کو بدترین معاشی بحران سے بچایا ہوا ہے۔ چین سے درآمدات روکنے سے پاکستان میں بنیادی ضرورت کی اشیا نہ صرف مہنگی ہو سکتی ہیں بلکہ درآمدات پر حاصل ہونے والے محصولات میں بھی خطرناک کمی ہو سکتی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس کی معیشت برآمدات کے بجائے سستی درآمدات پر کھڑی ہے۔ درآمدات روکنے سے کورونا وائرس ہمیں سب سے زیادہ متاثر کر سکتا ہے۔
ہم چین سے زیادہ مشکل میں ہیں کیونکہ کورونا وائرس کے عالمی اور علاقائی معیشت پر ہونے والے اثرات سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس چین جیسی عظیم معاشی گنجائش نہیں ہے۔
اگر ہمارے بس میں کچھ ہے تو صرف یہ ہے کہ کروانا وائرس کے علاج کیلئے ہم دوائیں اور کٹس حاصل کر لیں اور معیشت پر ہونے والے اثرات سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کو کچھ عرصے کیلئے مؤخر کر دیں۔ وگرنہ کورونا وائرس چین سے زیادہ ہمیں تباہ کرے گا، چاہے یہاں ایک بھی ہلاکت نہ ہو۔