دنیا
Time 03 فروری ، 2020

اسلامی تعاون تنظیم نے امریکی صدر کا ’منصوبہ مشرق وسطیٰ‘ مسترد کردیا

اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ سے متعلق حال ہی میں پیش کیے گئے ’منصوبے‘ کی مخالفت کی گئی اور اسے مسترد کردیا گیا۔

او آئی سی کا اجلاس بروز پیر فلسطینی قیادت کی درخواست پر سعودی عرب کے شہر جدّہ میں منعقد ہوا جس میں کہا گیا کہ تمام رکن ممالک اس منصوبے کے نفاذ میں کسی بھی طرح امریکا کا ساتھ نہیں دیں گے اور نہ اس سلسلے میں کوئی تعاون کریں گے۔

او آئی سی کا یہ اجلاس عرب لیگ کی جانب سے ٹرمپ کی نام نہاد ’ڈیل آف سنچری‘ کو مسترد کرنے کے دو دن بعد منعقد کیا گیا جس کا مؤقف تھا کہ ٹرمپ کی پالیسی فلسطینی عوام کے جائز حقوق اور خواہشات کے بھی خلاف ہے۔

خیال رہے کہ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ کھڑے ہوکر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کا حل پیش کرتے ہوئے اس پالیسی کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل اور فلسطین دونوں ممالک کیلئے جیت ہوگا۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے حالات میں بہتری لائے گا اور انہوں نے فلسطینیوں سے وعدہ کیا کہ انہیں ایک علیحدہ ریاست دی جائے گی جس کا دارالخلافہ یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) کے پاس موجود علاقہ ابودیس ہوگا۔

علاوہ ازیں ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھاکہ یروشلم اسرائیل کا غیر منقسم دارالخلافہ ہوگا۔

فلسطین کی قیادت نے ٹرمپ کے اس منصوبے کو پہلے ہی مسترد کردیا تھا اور ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ یہ سراسر ہماری خودمختاری کے خلاف ہے اور اسرائیل کے حق میں ہے۔

یاد رہے کہ او آئی سی دنیا میں اقوامِ متحدہ کے بعد دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے۔ جس کے ارکان ممالک کی مجموعی آبادی 1.8 ارب سے بھی زائد ہے۔

اس کے رکن ممالک میں زیادہ تر مسلمان ملک ہیں اور اس کے علاوہ وہ ممالک بھی اس کا حصہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں جن میں افریقی اور جنوب امریکی ریاستیں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ عرب لیگ بھی اس کا حصہ ہے جبکہ پاکستان، ترکی اور ایران بھی اس میں شامل ہیں۔ پانچ مبصر رکن بھی موجود ہیں جن میں روس اور تھائی لینڈ بھی شامل ہیں۔

دوسری جانب ایران نے الزام لگایا کہ سعودی عرب نے ان کے سرکاری وفد کو اس اجلاس میں شریک ہونے سے روک دیا۔

ایران کے ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت نے آپس میں کشیدگی کے باعث ایرانی وفد کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا جبکہ ایران ٹرمپ کی اس پالیسی کا سخت مخالف ہے، سعودی حکام نے پر کوئی مؤقف نہیں دیا ہے۔

ٹرمپ کے اس منصوبے پر عرب ممالک کی جانب سے ملاجلا ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس ردِعمل سےعرب ممالک میں آپس میں تفرقہ پھیل سکتا ہے کہ یا تو وہ نہتے فلسطینیوں کا ساتھ دیں یا اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کے پیشِ نظر امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دیں۔

مزید خبریں :