بلاگ
Time 04 فروری ، 2020

پنجاب کو اِس ظلم کا سامنا بھی رہا

(گزشتہ سے پیوستہ)

چالیس سال سے پنجاب پر حکمرانی کرنے والوں نے کوئی ایک نہیں، کئی ظلم کئے۔ چالیس سالہ داستان کے ابتدائی برسوں میں پنجاب کے شہروں اور سڑکوں کو مسلمان کیا گیا۔ اُن کے خوبصورت نام ختم کیے گئے۔ لائل پور کو فیصل آباد بنا دیا گیا۔

اس کا دُکھ ہمارے ہیرو کالم نگار حسن نثار کو بہت زیادہ ہے۔ ہمارے شہروں میں کئی سڑکوں کے پُرکشش نام تبدیل کر دیے گئے۔ اچھا بھلا منڈی ڈھاباں سنگھ، صفدر آباد بن کے رہ گیا۔

امریکہ میں مقیم ہمارے دوست عابد بٹ نے جب کسی بھی بیوقوف شخص کا حوالہ دینا ہو تو ایک ہی جملہ کہتا ہے کہ ’’صفدرا جے‘‘۔ علی پور سیداں کے پاس قلعہ سوبھا سنگھ کا نام بھی بدل دیا گیا۔ شکر ہے گنگارام اسپتال اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بچ گئے۔ اگر ٹوبے کا نام بدل دیا جاتا تو سید یونس اعجاز ناراض ہو جاتے، اتنا خوبصورت شاعر ناراض ہو جاتا تو پتا نہیں کتنی اداس نظمیں لکھتا۔

تیس چالیس برسوں میں ایک اور ظلم بڑی تیز رفتاری سے ہوا۔ دیہاتوں کی آبادی شہروں کی طرف منتقل ہوئی۔ ہمارے حکمرانوں نے توجہ ہی نہیں دی کہ دیہی پنجاب کو سہولتیں دے کر آبادی کی منتقلی کو روکا جا سکتا تھا، منصوبہ سازوں نے دیہاتوں میں نہ سڑکیں بننے دیں، نہ تعلیمی ادارے قائم ہونے دیے اور نہ ہی وہاں صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کی گئیں۔

آدھے سے زیادہ پنجاب میں اگر کوئی بیمار یا زخمی ہو جائے تو ایک ہی آواز آتی ہے ’’اینوں لاہور لے جائو‘‘۔ یہ جملہ سہولتوں سے محروم پنجاب کی اکثریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بعض نادان دوستوں نے لاہور ہی کو وسطی پنجاب سمجھ رکھا ہے، شاید انہیں یہ علم نہیں کہ وسطی پنجاب میں لاہور شہر کے علاوہ لاہور ڈویژن بھی ہے۔

وسطی پنجاب ہی میں گوجرانوالہ، سرگودھا اور ساہیوال ڈویژنوں کے اضلاع بھی ہیں، اسی وسطی پنجاب میں فیصل آباد ڈویژن کےاضلاع بھی ہیں۔ کیا ان ڈویژنوں، ان میں شامل اضلاع یا منسلک تحصیلوں میں یونیورسٹیاں، کالجز، اسپتال، ترقیاتی، سماجی یا پھر صنعتی ادارے اتنی بڑی تعداد میں بن سکے، جس کی ضرورت تھی۔

اس کا جواب نفی میں آئے گا۔ جب ان تمام اضلاع میں سہولتیں ہی نہیں دی گئیں تو پھر یہاں سے آبادی کا کوچ کر جانا فطری امر تھا۔

کیوں سرگودھا کا نوید وڑائچ لاہور میں جا بسا، کیوں ننکانہ صاحب کا شیخ منصور الٰہی لاہور کا ہو کے رہ گیا اور کیوں حافظ آباد کے بابر چٹھہ نے اپنا مسکن لاہور بنا لیا؟ اگر پنجاب کے حکمران سہولتیں دیتے تو لوگ یقیناً اپنے علاقوں میں رہتے، پھر کوئی راشد بھنڈارہ پاکپتن نہ چھوڑتا۔ آبادی کی اس منتقلی نے بھی پنجاب کی غربت میں اضافہ کیا۔

حکومت کاشتکاروں کو سہولتیں دے سکتی تھی مگر حکمرانوں نے کسان کو ضروری ہی نہیں سمجھا، اسے سبسڈائز کھاد دی جا سکتی تھی، بارانی علاقوں میں ٹیوب ویلوں کو بجلی یا ڈیزل کے بجائے سولر پینل لگا کر کسان کی مدد کی جا سکتی تھی، یہ سب کام حکومت کر سکتی تھی مگر شاید ہمارے حکمران یہ نہیں چاہتے کہ عارف والا کے خربوزوں سے وہاں کا کسان خوشحال ہو، منصوبہ ساز نہیں چاہتے کہ علی پور مظفر گڑھ کے شفا بخش سفید انار وہاں کے لوگوں کو خوشحال بنا سکیں۔

منصوبہ سازوں نے خوشاب کا ڈھوڈا آگے نہ بڑھنے دیا اور نہ ہی ملتان کا سوہن حلوہ آگے بڑھنے دیا۔

تقسیم سے پہلے پنجاب کے دو شہر صنعتی لحاظ سے بہت آگے تھے ایک امرتسر تھا اور دوسرا سیالکوٹ، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سیالکوٹ، امرتسر سے کہیں آگے تھا۔ جنگِ عظیم دوم میں انگریز فوج کے زخمی سپاہیوں کے علاج معالجے کے لئے سیالکوٹ کا بنا ہوا سرجری کا سامان استعمال ہوا۔ سیالکوٹ نے تو خیر قیامِ پاکستان کے بعد بھی اپنے بل بوتے پر بہت ترقی کی، سیالکوٹ اپنی سڑکیں، اپنا ایئرپورٹ خود بنانے والا شہر ہے۔

تقسیم سے پہلے زرعی آلات زیادہ تر بٹالہ میں بنتے تھے، لوہے کا کاروبار وہاں بہت تھا، بٹالہ آئرن سٹی کے طور پر مشہور تھا اور گرم کپڑا تو دھاریوال کی وولن مل ہی بناتی تھی۔ گورداسپور ضلع کے قصبے دھاریوال میں 1880ءمیں وولن مل قائم ہو گئی تھی۔ تقسیم کے بعد ڈسکہ ضلع سیالکوٹ زرعی آلات بنانے کا مرکز بنا مگر ہمارے لوگ اس کام کو بھی خاطر خواہ آگے نہ بڑھا سکے۔

اس کے ذمہ دار بھی حکمران ہیں۔ پنجاب سے ملتان، پسرور اور کامونکی کے بنے ہوئے مٹی کے برتنوں کو دنیا کے سامنے آرٹ کے نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا۔ گجرات اور گوجرانوالہ کی پنکھا سازی کو بھی بڑھایا جا سکتا تھا، وزیر آباد کے کٹلری سیٹ دنیا کو متعارف کروائے جا سکتے تھے، بہاولپور کے لوگ کھجور کے پتوں سے بہت کچھ بنا کر پیش کرتے ہیں مگر ہمارے فیصلہ سازوں نے اس پیشکش کو بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔

سہولتیں نہ ملنے کے باعث فیصل آباد میں کپڑا سازی کی صنعت سکڑ گئی، بنگلا دیش ہم سے آگے نکل گیا، ہم نہ زراعت پہ توجہ دے سکے اور نہ ہی صنعت کو آگے بڑھا سکے۔

اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج نے میسج کیا کہ ’’اگر پنجابی بولو تو جاہل سمجھا جاتا ہے، پنجابی زبان کو جہالت سمجھ لیا گیا ہے، ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا گیا ہے‘‘۔

مرحومہ سرفراز اقبال تو کبھی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہو سکیں، ہمیشہ پنجابی بولتی تھیں، میں جج صاحب کی خدمت میں کیسے عرض کروں کہ پنجاب اسمبلی میں پنجابی میں تقریریں کرنا معیوب ہے، پنجاب کی عدالتوں میں کوئی کارروائی پنجابی میں نہیں ہوتی، پنجاب کے اسکولوں، دفتروں اور اداروں میں پنجابی بولنا کسی عیب سے کم نہیں۔ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی ؎

جس پھول کو دیکھوں یہی لگتا ہے کہ اس میں

اک رنج بھی رہتا ہے مسرت کے علاوہ


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔