08 فروری ، 2020
ارضِ مقدس کا تنازع گزشتہ نصف صدی سے عالمِ اسلام کا سب سے اہم مسئلہ چلا آرہا ہے۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد 1969میں یہی مسئلہ اسلامی تعاون تنظیم OIC کے قیام کا باعث بنا۔
ماقبل 1924میں ترکوں کی خلافتِ عثمانیہ کا اختتام ہونے کے بعد سے اُمتِ مسلمہ کے پاس سیاسی طور پر کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں رہا تھا۔خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا اعلان اتنا شدید تھا کہ بہت سے راسخ الفکر مسلمان آج کے دن تک اس کی وجوہ سمجھ نہیں پائے ہیں ، وجہ اُس کی یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی اس دنیا سے رحلت کے بعد خلافت کا جو ادارہ قائم ہوا تھا۔
وہ اپنی شکلیں بدلتے ہوئے جیسے تیسے اجتماعی طاقت کی علامت کی حیثیت سے برابر چلا آرہا تھا۔ مزید بحث یا الجھاؤ میں پڑے بغیر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ شدت پسندی کی سوچ رکھنے والوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے اس محرومی یا کمی کو خوب استعمال کیا اور شدت پسندانہ افکار پر مبنی کئی تحریکوں نے جنم لیا۔
یوں تو اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کی دو سوچیں روزِ اول سے ہمارے درمیان موجود رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کس دور میں کس سوچ کو غلبہ حاصل ہوتا رہا ہے اور اس کی وجوہ کیا تھیں؟
انتہا پسندی کو اگر ہم مثبت معنوں میں لیتے ہوئے انقلابی و مزاحمتی فکر کے ساتھ دیکھیں اور اعتدال پسندی کو اصلاحی یا مفاہمتی حیثیت دیں تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ مسلم دورِ عروج میں تو شاید اول الذکر کے لیے کچھ گنجائش نکلتی ہو لیکن دورِ زوال میں تو یہ سوچ سوائے مزید بربادی کے اور کچھ نہیں دے سکی۔
اس پسِ منظر میں درویش، صدر ٹرمپ کے امن منصوبے ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ کا جائزہ پیش کرنا چاہتا تھا کہ ہمارے ان سے بھی بڑے لیڈر نے کوالالمپور میں ’’صدی سے بھی بڑی ڈیل‘‘ پیش فرما دی ہے۔
فرماتے ہیں کہ ’’دنیا میں یہودی بہت تھوڑی تعداد یعنی ایک کروڑ سے زائد ہونے کے باوجود طاقتور ہیںجبکہ ہم مسلمان ایک ارب تیس کروڑ کی بڑی اکثریت کے باوجود بحران کا شکار ہیں، ہماری کوئی آواز نہیں کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر پر OICکا ایک سربراہ اجلاس تک نہیں بلا سکتے‘‘۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ ’’کوالالمپور کانفرنس میں عدم شرکت پر معذرت خواہ ہیں، کچھ دوستوں کا یہ غلط تاثر تھا کہ ملائیشیا کانفرنس مسلم امہ کو تقسیم کردے گی۔
اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس امہ کو تقسیم نہیں متحد کرنے کیلئے تھی، میں اگلی کوالالمپور سمٹ میں ضرور شرکت کروں گا‘‘۔
اے اہلِ وطن خدارا اپنی خارجہ پالیسی میں شعور اور منطق کی روشنی ڈالیں اسے متوازن بنائیں اور پھر اس کی مطابقت میں قدم بڑھائیں۔اس اتنی بڑی تلخ سچائی کا ادراک کریں کہ ہم آج بحیثیت مجموعی اپنے عروج نہیں دورِ زوال سے گزر رہے ہیں۔
جس ملک کی معیشت ڈانواں ڈول ہو، نوجوان بیروزگاری اور عوام غربت اور مہنگائی کا رونا رو رہے ہوں، وہ امیر کبیر لیڈر جو کبھی اپنی خوشحالی کے تذکرے کرتے کہتا تھا کہ خدا نے مجھے اتنا نوازا ہے کہ میں کسی بھی ملک میں رہ کر مزے کی زندگی گزار سکتا تھا آج کہے کہ میرا لاکھوں کی تنخواہ میں بھی گزارا نہیں ہوتا وہاں چند ہزار کمانے اور مہنگائی کی چکی میں پسنے والے کروڑوں عوام کہاں جائیں؟
ایسی پتلی حالت میں ہم اتنے بڑے بڑے دعوے آخر کیسے کر سکتے ہیں کہ مودی میں عقل نہیں وہ ابنارمل ہے۔ انڈیا کے ٹکڑے ہونے والے ہیں۔ ہمارے انتہائی قریبی دوستوں کو غلطی لگی تھی، ہم اُن کی باتوں میں آگئے تھے، ہم سے غلطی ہو گئی ہم آپ کی کانفرنس میں کیوں نہ آئے۔
حضور غور فرمائیں آپ کیا فرما رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی خارجہ پالیسی کی کڑیاں جانتے ہیں کہاں سے کہاں تک جڑی ہوئی ہیں؟ کیا اس غریب ملک کو ہوا میں معلق یا ڈانواں ڈول کر کے رکھنا ہے جس کو مشکل وقت میں کوئی ڈھارس دینے والا بھی نہ ہو۔
کیا آپ جانتے ہیں اس وقت جیسے تیسے بھی امہ کے اس مشترکہ پلیٹ فارم OICکو کیا چیلنجز در پیش ہیں بلکہ پوری امہ ہی دو پھانک ہونے کی تیاری میں ہے؟ اعتدال پسندی و انتہا پسندی کے دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے۔
جذباتیت شعور کی بچی کھچی طاقت کو بھی نگل جانا چاہتی ہے۔ خدارا وطنِ عزیز پاکستان کو کسی ایسی بڑی آزمائش میں ڈالنے سے رحم فرمائیں۔
ہم جس کیمپ میں ہیں وہیں بہتر ہیں۔ ہم نے اسلاموفوبیا پر ٹی وی چینل کیا نکالنا ہے ہمارے پہلے سے موجود جو فوبیاز ہیں انہی کو سنبھال لیں تو بڑی بات ہو گی۔
کبھی کہنا ہم آپ کے اجلاس میں آرہے ہیں پھر کہنا نہیں آ رہے ہیں پھر کہنا غلط کیا آنا چاہئے تھا اور پھر سال پہلے ہی بنا سوچے کمٹمنٹ دے دینا۔ مزید کتنے پینترے بدلیں گے اور پھر اُن کا حاصل؟ عوام پر ترس کھائیں اور ان کے اصل دکھوں پر توجہ فرمائیں۔