09 فروری ، 2020
بنو لحیان وہی قبیلہ ہے، جس نے قرآنِ پاک کے 8 قراء دھوکے سے شہید اور دو کو مکّہ لے جا کرفروخت کردیا تھا، جنہیں بعدازاں شہید کردیا گیا۔ اب بدلے کا وقت آگیا تھا۔چناں چہ آپﷺ دوسو صحابہؓ کے ساتھ نہایت برق رفتاری سے بطن غران نامی وادی جا پہنچے۔ بنو لحیان کو مسلم لشکر کی آمد کی اطلاع ملی، تو وہ پہاڑوں میں رُوپوش ہوگئے۔ آپﷺ نے وہاں دو روز قیام فرمایا اور بنو لحیان کی تلاش میں صحابہؓ کے دستے بھیجے، لیکن کوئی ہاتھ نہ آیا۔
رسول اللہﷺ نے حضرت عکاشہ بن محصنؓ کی قیادت میں چالیس صحابہؓ کے دستے کو غَمر بھیجا، جو بنو اسد کے ایک چشمے کا نام تھا۔ مسلمانوں کی آمد کی اطلاع پاکر شرپسند کفّار رُوپوش ہوگئے۔
آنحضرتﷺنے حضرت محمّد بن مسلمہؓ کی قیادت میں دس افراد کوذی القصہ کی جانب روانہ کیا، جو مدینے سے 24 میل کی مسافت پر ہے۔ یہ لوگ رات کے وقت وہاں پہنچے، تو کفّار اُنھیں دیکھ کر رُوپوش ہوگئے، لیکن جب صحابۂ کرامؓ سوگئے، تو اچانک حملہ کر کے 9 کو شہید کردیا، جب کہ حضرت محمّد بن مسلمہؓ زخمی ہوکر گر پڑے، وہ حرکت بھی نہیں کرسکتے تھے۔
جب کفّار وہاں سے چلے گئے، تو ایک مسلمان کا اُس جگہ سے گزر ہوا۔ جب وہ لاشوں کے قریب آیا، تو محمّد بن مسلمہؓ کو زندہ پایا، چنانچہ اُنھیں مدینہ منوّرہ پہنچا دیا۔ان صحابہؓ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے رسول اللہﷺ نے حضرت ابو عبیدہؓ کوامیر بناکر چالیس صحابہؓ کا لشکر روانہ کیا۔ وہ ذی القصہ پہنچے، تو حسبِ سابق کفّار پہاڑوں میں رُوپوش ہوگئے۔ صرف ایک شخص گرفتار ہوا، لیکن وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا، جس پر اُسے چھوڑ دیا گیا۔
آنحضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو مقام الجموم میں بنی سلیم کی جانب روانہ فرمایا۔ وہ جب وہاں پہنچے، تو اُنہیں قبیلہ مزینہ کی ایک عورت ملی، جس کا نام حلیمہ تھا۔ اُس نے بنو سلیم کے ایک مقام کا پتا بتایا، جہاں حضرت زیدؓ نے چھاپا مارا، تو وہاں سے اونٹ، بکریاں اور قیدی ملے، جن میں حلیمہ کا شوہر بھی تھا۔ حضرت زیدؓ سب کو لے کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے اُس عورت اور اُس کے شوہر کو کافی مال دے کر آزاد کردیا۔اسی طرح، رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ کفّارِ مکّہ کا ایک قافلہ شام سے آرہا ہے، تو آپﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو ستّر سواروں کے ساتھ اُسے روکنے کے لیے روانہ کیا۔
اس قافلے کے سربراہ، رسول اللہﷺ کے داماد اور حضرت زینبؓ کے شوہر، ابوالعاص تھے، جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ مسلمانوں سے مڈبھیڑ ہوئی، تو کچھ مشرک بھاگ گئے، کچھ گرفتار ہوئے، جب کہ مالِ غنیمت میں دیگر سامان کے ساتھ صفوان بن اُمیہ کی بہت سی چاندی بھی پکڑی گئی۔ ابو العاص گرفتار تو نہ ہوئے، لیکن بھاگ کر مدینہ آگئے اور حضرت زینبؓ سے پناہ لے کر قافلے والوں کا مال واپس کرنے کی استدعا کی جو کہ اُن کے پاس امانت تھا۔ نبی کریمﷺ نے اُنہیں رہا کر دیا۔ وہ سارا مال لے کر مکّہ پہنچے اور امانتیں مالکان کے حوالے کرکے مدینہ آکر مسلمان ہوگئے۔ آنحضرتﷺ نے تجدیدِ نکاح کے بعد حضرت زینب ؓ کو اُن کے ساتھ کردیا۔
نیز، حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں 15 افراد کو وادی ٔطرق کی جانب روانہ کیا گیا۔ وہاں موجود بدوؤں کو اطلاع ملی کہ رسول اللہﷺ فوج کے ساتھ تشریف لارہے ہیں، تو وہ رُوپوش ہوگئے۔رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کی امارت میں بارہ صحابہؓ پر مشتمل ایک دستہ وادی القریٰ کی جانب بھی روانہ کیا، جس کا مقصد سرحدی گشت اور دشمن کی نقل وحرکت کا پتا لگانا تھا ، مگر وادی القریٰ کے لوگوں نے اُن پر حملہ کرکے نوصحابہ کرامؓ کو شہید کردیا، صرف تین زندہ بچ سکے، جن میں ایک حضرت زید بن حارثہؓ بھی تھے ۔
رسول اللہؐ نے حضرت ابو عبیدہ ؓبن جراح کی امارت میں تین سو سپاہ کا ایک دستہ ساحلِ سمندر پر قریش کے قبیلے جہینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ آنحضرتؐ نے قافلے کو زادِ راہ کے طور پر کھجوروں کی ایک زنبیل بھی دی۔ جب مجاہدین کے پاس کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا، تو حضرت ابو عبیدہؓ ہر شخص کو دن بھر کی غذا کے طور پر ایک کھجور دیتے، جسے وہ چُوستے رہتے۔ جب زیادہ بھوک لگتی، تودرختوں کے پتّے توڑ کر کھاتے اور پانی پی کر اللہ کا شُکر ادا کرتے۔ اسی وجہ سے اس کا نام’’ جیش الخبط‘‘ پڑ گیا(خبط جھاڑے ہوئے پتّوں کو کہتے ہیں)۔ اس کے علاوہ، اسے سَرِیّہ سیف البحر یعنی’’ سمندر والی جنگ ‘‘بھی کہتے ہیں۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم سخت بھوک کی حالت میں سمندر کے کنارے چلے جا رہے تھے کہ دُور سے خشکی کا ایک بڑا ٹیلہ نظر آیا۔ قریب پہنچے، تو دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑی مچھلی تھی۔ پہلے تو امیرِ لشکر نے اُسے کھانے سے منع فرمایا، لیکن پھر ہماری حالت کے پیشِ نظر اجازت دے دی۔ ہم تین سو لوگ تھے، ایک ماہ تک اُس کا گوشت کھاتے رہے اور اُس کا تیل جسم پر ملتے رہے، یہاں تک کہ ایک بار پھر ہمارا وزن بڑھ گیا۔ ہم نے اُس مچھلی کے کچھ ٹکڑے کاٹ کر واپسی کے سفر کے لیے محفوظ بھی کر لیے۔ مدینہ پہنچ کر نبی کریمﷺ سے مچھلی کا تذکرہ کیا، تو آپؐ نے فرمایا’’ یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے رزق کا بہترین بندوبست تھا۔‘‘
آنحضرتؐ نے حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کی قیادت میں ایک لشکر دومۃ الجندل میں قبیلہ کلب کی طرف روانہ کیا۔ آپؐ نے اپنے سامنے بٹھا کر خود اپنے دستِ مبارک سے اُن کے سر پر عمامہ باندھا اور فرمایا’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو، جو اللہ کے ساتھ کفر کرے، تم اُس سے لڑو، لیکن لڑائی کے دوران نہ خیانت کرو، نہ بدعہدی کرو اور نہ کسی بچّے کو قتل کرو۔
اگر وہ لوگ تمہاری اطاعت کر لیں، تو اُن کے بادشاہ کی بیٹی سے نکاح کر لینا۔‘‘ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف دومۃ الجندل آ گئے اور تین روز تک اسلام کی دعوت دیتے رہے، جس کے نتیجے میں اہلِ قبیلہ اور اُن کا سربراہ اسلام لے آیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے آنحضرتؐ کی ہدایت کے مطابق سردار کی بیٹی سے نکاح کر لیا اور اُنہیں مدینہ لے آئے۔
رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو سعد کے لوگوں نے خیبر کے یہودیوں کی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔اس پر آپؐ نے سیّدنا علیؓ کی قیادت میں دو سو صحابہؓ کا ایک دستہ اُن کی جانب روانہ کیا۔ اُنھیں راستے میں ایک شخص ملا، جس نے امان دینے کی شرط پر بتایا کہ ان لوگوں نے خیبر کی کھجوروں کے عوض یہود کو امداد فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔نیز، اُس نے بنی سعد کے اس گروہ کے قیام کی جگہ بھی بتا دی۔ چناں چہ حضرت علیؓ نے اُن پر شب خون مارا، لیکن بنو سعد وہاں سے بھاگ نکلے، تاہم پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریاں مالِ غنیمت میں ملیں۔
وادی القریٰ کے نواح میں مقیم، بنو نزادہ کی ایک شاخ کے لوگوں نے رسول اللہﷺ کو نعوذباللہ شہید کرنے کا سازشی منصوبہ بنایا، جس کی آپﷺ کو اطلاع ہو گئی۔ آپؐ نے سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی زیرِ قیادت ایک لشکر روانہ کیا، جس نے نمازِ فجر کے وقت اُن کے چشمے پر چھاپہ مارا، جس میں کچھ لوگ قتل ہوئے۔ حضرت سلمہؓ بن اکوع فرماتے ہیں’’ ایک گروہ، جو پہاڑ کی جانب بھاگ رہا تھا، اُسے پکڑنے کے لیے اُن کی جانب تیر پھینکے، جس پر وہ رُک گئے۔
مَیں اُن کے قریب گیا، تو دیکھا کہ اُن میں اُمّ ِ قرفہ نامی عورت اور اُس کی بیٹی بھی تھی۔ مَیں ان سب کو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس لے آیا۔ پھر اُنھیں لے کر رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے اُمّ ِ قرفہ کی بیٹی کو مجھ سے لے کر مکّہ بھیج دیا اور اُس کے عوض متعدّد مسلمان قیدی رہا کروا لیے۔‘‘ اُمّ ِ قرفہ نے رسول اللہؐ کے قتل کے لیے اپنے خاندان کے تیس جنگ جُو نوجوانوں پر مشتمل گروہ بنایا ہوا تھا، چناں چہ اُن سب کو انجام تک پہنچا دیا گیا۔
اسیر بن زارم نامی تاجر اور قبائلی سردار مسلمانوں اور رسول اللہﷺ کا شدید دشمن تھا۔ اُس نے ابو رافع( یہودی تاجر) کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جنگ جوئوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ نبی کریمؐ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی امارت میں تیس صحابہؓ کا ایک دستہ اُس کی جانب روانہ کیا۔ یہ مجاہدین خیبر پہنچ کر اسیر بن زارم سے ملے اور اُس سے کہا کہ’’ ہمیں رسول اللہؐ نے بھیجا ہے کہ اگر تم اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لو، تو تمہیں خیبر کا عامل بنا دیں گے۔‘‘ اس پر وہ تیس یہودیوں کو لے کر صحابہ کرامؓ کے ساتھ روانہ ہو گیا۔
حضرت عبداللہ بن انیسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم اُنہیں لیے مدینے کی جانب رواں دواں تھے، راستے میں اُسے ہمارے ساتھ چلنے پر پچھتاوا ہونے لگا۔ اُس نے چلتے ہوئے میری تلوار کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ مَیں نے اُسے نظرانداز کر دیا، لیکن محتاط ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے پھر تلوار چھیننے کی کوشش کی، تو مَیں اپنا اونٹ کنارے پر لے گیا اور اُس سے کہا’’اے اللہ کے دشمن! تُو نے خلافِ عہد دو مرتبہ یہ حرکت کی ہے‘‘ یہ کہہ کر مَیں اونٹ سے نیچے اُتر گیا۔ مَیں نے لشکر کو آگے جانے دیا۔
اب وہاں مَیں اور وہ تنہا رہ گئے تھے۔ مَیں نے تلوار سے اُس پر وار کیا، جس سے اُس کی ران اور پنڈلی کا کچھ حصّہ کٹ گیا اور وہ اونٹ سے گر پڑا۔ تاہم اُس نے گرتے گرتے مجھ پر وار کیا، جس سے میرا سَر زخمی ہو گیا۔ قافلے کے باقی لوگ بھی پلٹ آئے اور اُس کے ساتھ دیگر یہودیوں کو بھی قتل کر دیا۔ صرف ایک شخص باقی بچا، جو ہمارے ہاتھ نہ آ سکا۔
قبیلہ عرینہ اور عکل کے آٹھ افراد بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے اور سرکارِ دوعالمؐ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے بعد مدینے میں رہائش اختیار کر لی، لیکن اُنہیں وہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی۔ نبیٔ رحمتؐ نےہم دردی فرماتے ہوئے اُنہیں چند اونٹوں کے ساتھ چراگاہ بھیج دیا، جو مدینے سے چھے میل دُور قبا میں تھی۔ یہاں رسول اللہؐ کے آزاد کردہ غلام، حضرت یسارؓ چند افراد کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ایک صبح اُنہوں نے حضرت یسارؓ اور اُن کے ساتھیوں کو رسیوں میں جکڑ کر سب کے ہاتھ پائوں کاٹ ڈالے۔ زبان اور آنکھوں میں کانٹے ٹھونک دیے، اس طرح سخت اذیّتیں دے کر اُن سب کو شہید کر ڈالا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔
جب آنحضرتﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی، تو آپؐ کو بے حد دُکھ ہوا۔ لہٰذا فوری طور پر اُن کے تعاقب میں بیس صحابہؓ پر مشتمل دستے کو روانہ کیا، جس کی قیادت حضرت کرزؓ بن جابر کو سونپی۔ صحابہؓ نے برق رفتاری کے ساتھ قاتلوں کا تعاقب کیا۔ ایک مقام پر، جب وہ لوگ سستانے کے لیے رُکے تھے، اُنہیں گھیر کر گرفتار کر لیا اور رسیوں سے باندھ کر مدینے لے آئے۔ ان غدّاروں کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا ،جو اُنہوں نے مسلمان چرواہوں کے ساتھ کیا تھا۔
ابو سفیان کو غزوۂ خندق کی ناکامی کا بڑا غم تھا۔ اس کی دلی تمنّا تھی کہ کسی طرح دھوکے سے آپﷺ کو شہید کر دیا جائے، نعوذباللہ۔ اُس نے قریش کے چند نام وَر جنگ جوئوں کو جمع کیا اور بولا’’کیا تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا بہادر نہیں ، جو(حضرت) محمّد(ﷺ) کو دھوکے سے قتل کر دے، حالاں کہ وہ تو مدینے کے بازاروں میں چلتے پِھرتے ہیں‘‘، اس پر ایک شخص نے یہ ذمّے داری لے لی۔
ابو سفیان نے اُسے سواری اور خرچ دے کر مدینہ منوّرہ بھیج دیا۔ جب وہ مدینہ پہنچا، تو آنحضرتﷺ مسجد بنی عبداللہ شہل میں تشریف فرما تھے۔ وہ آپؐ کو تلاش کرتا ہوا وہاں تک پہنچ گیا۔ جیسے ہی سرکارِ دوعالمؐ پر حملے کی نیّت سے آگے بڑھا، تو حضرت اُسیدؓ بن الحضیر نے جھپٹا مار کر اُسے گلے سے پکڑ لیا۔
رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اے شخص! سچ بتا کہ تو کون ہے؟‘‘ اُس نے کہا’’ کیا مجھے امان مل جائے گی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ ہاں۔‘‘ اُس نے پوری تفصیل آپؐ کے گوش گزار کر دی۔ آپؐ نے اُسے چھوڑ دیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔ آنحضرتؐ نے حضرت عمروؓ بن اُمیہ اور حضرت سلمہؓ بن اسلم کو مکّہ بھیجا اور تاکید کی کہ’’ اگر تم دونوں ابو سفیان بن حرب کو غفلت میں پائو، تو اُسے قتل کر دینا۔‘‘ وہ دونوں خاموشی سے مکّے میں داخل ہو گئے۔ عمروؓ بن اُمیہ رات کو بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے اُنہیں پہچان لیا۔ اُس نے فوری طور پر قریش کو خبر کر دی۔ قریش جانتے تھے کہ عمروؓ جاہلیت میں بھی بڑے بہادر اور نڈر تھے، لہٰذا اُنہیں اندیشہ ہوا کہ یہ کسی خطرناک مشن پر آئے ہیں۔
لہٰذا اُنہوں نے اُن دونوں کے قتل کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت عمروؓ اور حضرت سلمہؓ کو خبر ملی، تو وہاں سے بھاگ نکلے۔ اُنہیں راستے میں عبیداللہ بن مالک ملا، جسے عمروؓ نے قتل کر دیا۔ آگے بڑھے ،تو قبیلہ بنی ویل کا ایک اور شخص ٹکرایا۔ اُنہوں نے اُسے بھی قتل کر دیا۔ اور آگے بڑھے ،تو قریش کے دو جاسوس ملے، جو اُن ہی کی کھوج میں تھے۔ اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو گرفتار کر کے مدینہ لے آئے۔ (جاری ہے)