09 فروری ، 2020
میری ذاتی، جذباتی وابستگی صرف چار شہروں کے ساتھ ہے۔لائل پور، لاہور، اسلام آباد اور میاں چنوں۔لائل پور سے عشق و عقیدت تو عیاں ہے جس سے میرے قارئین بخوبی واقف ہیں۔ رہ گیا لاہور تو یہ وہ شہر ہے جسے دیکھتے ہی میں خود رہ گیا اور اس طرح رہ گیا کہ ٹین ایج سے لے کر اس عمر تک یہیں کا یہیں ہوں۔
’’ہجرت‘‘ کی بھی تو کیسی؟’’وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا‘‘میاں چنوں دادا کے پاس بھیجا گیا تو سال ڈیڑھ سال میں کھوٹے سکے کی طرح واپس لوٹا دیا گیا کہ سکولنگ کا معیار مناسب نہ تھا۔ باقی بچا اسلام آباد تو یہاں دو ڈھائی سال 18ویں گریڈ میں گزارے تو اس زمانے میں عملاً یہ شہر ’’شہر خموشاں‘‘ تھا جس کے بارے میں انہی دنوں لکھا کہ ’’یہ شہر گوروں کے قبرستان کی طرح بہت منظم، صاف ستھرا اور خوب صورت ہے لیکن قبرستان تو قبرستان ہی ہوتا ہے اور میں ابھی زندہ ہوں‘‘۔
میرے باس سینئر بیوروکریٹ جہانگیر اے خان باس نہیں بڑے بھائیوں جیسے تھے جو ملکہ ترنم نور جہاں کی ڈائریکشن میں بنی فلم ’’چن وے‘‘ کے ہیرو رہ چکے تھے جس کا یہ گانا آج بھی لازوال اور صاحبان ذوق کا فیورٹ ہے۔’’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے منڈیا سیالکوٹیا‘‘جہانگیر بھائی کی محبت نے ہی مجھے اس سرکاری بھاڑ میں جھونکا تھا۔ دو ڈھائی سال گزار کے استعفیٰ دے دیا اور واپس لاہور۔ یہ بھٹو صاحب کے زوال سے ڈیڑھ دوسال پہلے کی بات ہے کہ سال مہینے مجھے یاد نہیں رہتے۔
اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کراچی کے ساتھ میرا تعلق بہت ہی ’’واجبی‘‘ سا ہے لیکن اتنا واجبی بھی نہیں کیونکہ ’’پراونشل کوارڈی نیشن‘‘ کی پبلی کیشنز کا نگران اور ماہنامہ ’’السیف‘‘ کا ایڈیٹر ہوتے ہوئے ہر دوسرے تیسرے مہینے مجھے کراچی جانا پڑتا تھا بلکہ ماہنامہ ’’السیف‘‘ کے لئے کراچی کی ٹیم بھی میں نے ہی تیار کی جس میں آج کی ممتاز اور مقبول شاعرہ فاطمہ حسن اور ’’اداکار صحافی‘‘ اسد جعفری نمایاں ترین تھے۔
فاطمہ حسن اس وقت ایم اے جرنلزم کے شاید فائنل ایئر کی طالبہ تھی۔ ایک بڑی کشش میرا یونیورسٹی دنوں کا دوست بانکا سجیلا تاجی تھا، پورا نام امتیاز جو زمانۂ طالب علمی میں نیوکیمپس کے کارویڈورز میں اکثر یہ گیت کنگنایا کرتا:جب کوئی پیار سے بلائے گاتم کو امتیاز یاد آئے گاتاجی ایک معروف چائے کمپنی میں ڈائریکٹر مارکیٹنگ تھا اور رہائش تھی طارق روڈ کے ایک فلیٹ میں۔
میرا آفس اور ٹھکانہ میٹروپول کے قریب اولڈ کمشنرز ہائوس میں تھا۔ ایک اور اٹریکشن تھی بہت ہی پیارا شاداب مسرت نِک نیم جونی جو بعد ازاں جمیل الدین عالی صاحب کا سن اِن لا ٹھہرا۔ پچھلے دنوں لاہور آیا ہوا تھا۔ مختصراً یہ کہ کراچی کے ان سرکاری دوروں کے دوران کام سے فراغت کے بعد ایک ہی کام تھا.... آوارگی۔ میرے دل و دماغ پر آج بھی وہی نسبتاً دھیما، دھیرا، دھلا دھلا، بھیگا بھیگا، دیر تک جاگتا روشنیوں کا شہر کراچی چھایا ہوا ہے ۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ اس شہر کو ایک ایسے آدمی کی نظر لگ گئی جس کے بارے میں ملک بھر میں مشہور تھا کہ ان صاحب کی آنکھیں ہیمامالنی سے تو کیا، آپس میں نہیں ملتیں۔ یہی صاحب نواز شریف کے ’’موجد‘‘ بھی تھے.... میں تو بھٹو مرحوم کے زوال سے ڈیڑھ دو سال پہلے ہی اسلام آباد چھوڑ چکا تھا۔سو کراچی آمد و رفت بھی ختم لیکن آہستہ آہستہ خبریں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کراچی اجڑتا اور ادھڑتا جا رہا ہے۔ پھر نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ ’’ چورنگی‘‘ کم پڑتی گئی اور ’’چریاؤں‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ بوری بند لاشیں اور بھتوں کے ساتھ ساتھ چائنا کٹنگ جیسی اصطلاحیں سنائی دینے لگیں، تجاوزات کا کلچر عام ہوا اور پھر سنتا جا شرماتا جا۔’’جاگنے والوں جاگو مگر خاموش رہو‘‘اور زوال کا کمال ملاحظہ ہو:شہر کو برباد کرکے رکھ دیا اس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا، روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب گیا لیکن ہمارے ہاں ایک محاورہ نما ہے ’’اَت خدا دا ویر‘‘۔
اور تو اور کراچی میں گندگی، غلاظت، کوڑا کرکٹ کی ’’کٹی پہاڑیاں‘‘ دیکھ کر ٹی وی سکرینوں سے بدبو اٹھتی محسوس ہوتی لیکن پھر وہی ’’اَت خدا دا ویر‘‘ منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہوا تو خبر آئی خیر سے ریلوے ٹریک پر ہی مارکیٹیں نہیں بنیں، مزار قائد بھی حصار میں ہے۔
مدہم موہوم سے تعلق کے باوجود کراچی ہے تو اپنا ہی اور شاید :اجنبی شہر یہ نسبت تو رہے گی تجھ سےتیری گلیوں میں ہے کھویا ہوا اپنا کوئی شام ٹی وی پر سنا، صبح اخباروں میں پڑھا کہ عزت مآب چیف جسٹس نے غیرقانونی عمارتیں گرانے اور کراچی کا نیا پلان تیار کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ..... ’’وفاق ، سندھ اور نہ شہری حکومت کام کررہی ہے۔ کیا کریں کسے بلائیں‘‘۔’’بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے‘‘تھینک یو چیف جسٹس صاحب!چل نکلی ہے تو کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جائے گی۔ انشا اللّٰہ۔