14 فروری ، 2020
فلپائن اور ہانگ کانگ کے بعد جاپان سے بھی کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت کا کیس سامنے آگیا جب کہ چین میں وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 1400 ہوگئی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق جاپان کے دارالاحکومت ٹوکیو سے 80 سالہ خاتون کی کورونا وائرس سے ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
جاپانی میڈیا کا کہنا ہے کہ وائرس سے انتقال کرنے والی خاتون کا چین کے صوبے ہوبئی سے بظاہرکوئی تعلق نہیں تھا۔
اس کے علاوہ جاپانی بحری بندرگاہ پر ایک جہاز میں 200 سے زائد افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔
اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ جہاز سے مسافروں کا انخلاء ممنوع ہے، صرف کچھ بزرگ افراد کو نکالا جاسکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل جاپان کا ایک اور بحری جہاز بھی دو ہفتے سمندر میں گزار چکا ہے جسے 5 ممالک کی جانب سے وائرس کا خطرہ تھا تاہم اب مسافر کمبوڈیا میں اترنا شروع ہوگئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین میں جان لیوا وائرس کے نتیجے میں مزید 121 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس کے بعد مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 1400 کے قریب پہنچ گئی ہے جب کہ چین میں وائرس سے مبتلا ہونے والوں کی تعداد 65000 ہوگئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کورونا وائرسز ایک سے زائد وائرس کا خاندان ہے جس کی وجہ سے عام سردی سے لے کر زیادہ سنگین نوعیت کی بیماریوں، جیسے مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) اور سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم (سارس) جیسے امراض کی وجہ بن سکتا ہے۔
یہ وائرس عام طور پر جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سارس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ بلیوں کی ایک خاص نسل Civet Cats جسے اردو میں مشک بلاؤ اور گربہ زباد وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس سے انسانوں میں منتقل ہوا جبکہ مرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نسل کے اونٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، بخار، کھانسی اور نظام تنفس سے جڑی دیگر بیماریاں شامل ہیں۔
اس وائرس کی شدید نوعیت کے باعث گردے فیل ہوسکتے ہیں، نمونیا اور یہاں تک کے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اتنا خطرناک نہیں جتنا کہ اس وائرس کی ایک اور قسم سارس ہے جس سے 3-2002 کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 800 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور یہ وائرس بھی چین سے پھیلا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری انفلوئنزا یا فلو جیسی ہی ہے اور اس سے ابھی تک اموات کافی حد تک کم ہیں۔
ماہرین کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق لوگوں کو بار بار صابن سے ہاتھ دھونے چاہئیں اور ماسک کا استعمال کرنا چاہیئے اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کرنی چاہیئے۔