20 فروری ، 2020
امریکی صدر ٹرمپ فروری کے آخری عشرے میں بھارت کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی صدر کا دورۂ بھارت اہمیت کا حامل ہونا ہی تھا مگر صدر ٹرمپ اور اُن کی پالیسیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر غور کیا جائے تو اس کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے۔
امریکا اور بھارت کے مابین پیار کی پینگوں کا آغاز اس غلطی کا نتیجہ ہے جو کارگل کے منصوبہ سازوں نے کوئی 21برس قبل کی تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کوئی ایسا موقع بھارت کو نہیں مل رہا تھا کہ جس کے ذریعے وہ امریکا کی قربت حاصل کر سکے۔
کارگل کی غلطی نے بھارت کو یہ موقع فراہم کر دیا۔ اس کے بعد کلنٹن، بش جونیئر اور اوباما نے بھارت کے دورے کیے۔ بش دور میں تو سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی جیسا معاہدہ کرنے میں بھارت کامیاب ہو گیا۔ انہی دنوں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے حوالے سے امریکا صف بندیاں کر رہا تھا۔
چین کے حوالے سے ان مفادات کو حاصل کرنے کے لئے بھارت امریکا کا اتحادی بن گیا اور امریکا نے اپنی انڈو پیسفک اسٹرٹیجی طے کر لی اور بھارت کو اس میں کردار دے دیا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے امریکا اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو حاصل اور انہیں برقرار رکھنے کی غرض سے اپنے اتحادیوں کو تجارتی معاملات میں سہولیات فراہم کرنے کی حکمتِ عملی پر گامزن رہا۔ یورپ، ایشیا وغیرہ میں اس کا طریقہ کار یہی رہا جس سے امریکی معیشت ایک دباؤ میں رہتی تھی۔ صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے وقت تک امریکی معیشت کے ان اثرات سے عام امریکی کی زندگی متاثر ہونے لگی۔
لہٰذا ٹرمپ اس انتخابی نعرے کے ساتھ میدان میں آئے کہ اسٹرٹیجک مفادات صرف امریکا کے نہیں بلکہ اس کے اتحادیوں کے بھی ہیں لہٰذا امریکا ان مفادات کے حصول اور انہیں برقرار رکھنے کی جو قیمت ادا کر رہا ہے وہ اس قیمت کا ایک حصہ اب اپنے اتحادیوں سے ادا کروانا چاہتا ہے۔
اپنی بات پر ثابت قدم رہنے اور ثابت کرنے کی غرض سے ٹرمپ نے چین سے تجارتی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کیا تاکہ اس کے اتحادیوں کو بھی علم ہو جائے کہ وہ کسی تصادم کی پروا نہیں کر رہا۔ اس کے ساتھ یورپ وغیرہ سے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی غرض سے ٹیرف کے معاملات کو سامنے لایا اور اسی دوران بھارت کو بھی تین سال قبل ایک دھکا دے دیا۔
جب اس کی اسٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات پر ٹیکس چھوٹ کو ختم کر کے ان پر ٹیرف کو بڑھا دیا۔ بھارت کے لئے یہ افتاد کی مانند تھا مگر ٹرمپ نے یورپ کی نہیں پروا کی تو انڈیا کی بھلا کیا کرتا۔
بھارت نے ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کی زرعی اور طبی مصنوعات پر ٹیرف بڑھا دیا لیکن بھارتی معیشت کا امریکی معیشت سے بھلا کیا مقابلہ۔
بھارتی معیشت اس وقت تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ 50برسوں میں سب سے زیادہ شرح بےروزگاری اس وقت بھارت میں موجود ہے جبکہ آئی ایم ایف کے مطابق اس سال بھارت کی شرح ترقی بھی 4.8فیصد رہنے کی توقع ہے۔ جو بیروزگاری کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ناکافی ہے۔
لہٰذا بھارت کسی بھی قسم کی تجارتی بدمزگی کے خاتمے کے لئے امریکا سے معاملات کا حل چاہے گا۔ مودی نے ٹیرف بڑھا کر اپنی مقامی انڈسٹری کو بچانے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
امریکا کا یہ صدارتی انتخابات کا سال ہے اس لئے صدر ٹرمپ رائے دہندگان کو یہ دکھانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے بھارت جیسے ملک سے ایک ایسا تجارتی معاہدہ کر لیا جس کے ذریعے بھارت کی مارکیٹ امریکیوں کے لئے زیادہ کھل گئی۔
اور امریکا بھارت سے جو 25ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ برداشت کرتا ہے اس کا بھی تدارک کر ڈالا کہ یہ خسارہ بتدریج کم ہوتا چلا جائے۔ ٹرمپ بھارت کے لئے ٹریڈ پالیسی اور انڈوپیسفک اسٹرٹیجی کو اکٹھا ملا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کوئی امریکا کی محبت میں انڈوپیسفک اسٹریٹجی یا چین کے مقابلے میں نہیں کھڑا ہونا چاہتا بلکہ یہ اُس کی ضروریات میں شامل ہے۔
ٹرمپ کے دورے میں 2.5ارب ڈالر کے امریکی ہیلی کاپٹروں کے معاہدے کی توقع ہے جبکہ بحریہ اور میری ٹائم پر بھی معاہدوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ سائنس اور خلائی ریسرچ سنٹر کے قیام پر بات چیت کی توقع کی جا رہی ہے جس کے مقاصد اور بھی ہو سکتے ہیں۔
بھارت ایک طویل عرصے سے علاقے میں تھانیداری حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس لئے وہ ہر قیمت پر یہ چاہے گا کہ صدر ٹرمپ کے دورے میں وہ اپنے عوام کو یہ تاثر دینے میں کامیابی حاصل کر لے کہ امریکا سے تعلقات میں گرم جوشی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
علاوہ ازیں امریکا بھارت کو ماضی جتنی ہی اہمیت دے رہا ہے۔ اپنی سفارتی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے بھارت یہ چاہے گا کہ صدر ٹرمپ بھارت کی سر زمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کے حوالے سے کوئی منفی جملہ ادا کرے بلکہ وہ سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ وہ سی پیک کے حوالے سے بھی کوئی منفی گفتگو کر ڈالے مگر واشنگٹن سے مصدقہ خبریں ہیں کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے صدر ٹرمپ کو تجویز کیا ہے کہ سی پیک کو صرف فوکس کرتے ہوئے وہ کوئی گفتگو نہ کرے۔
بلکہ بی آر آئی کے حوالے سے گفتگو نہ کرے لیکن بھارت ابھی تک اپنے اِس مقصد میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان حالات سے پاکستان لاتعلق نہیں رہ سکتا کہ صدر ٹرمپ کے دورۂ بھارت کے ہم پر کوئی منفی اثرات نہ پڑیں لیکن اس کے لئے بھرپور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے لیکن ہم تو ملائیشیا کی کانفرنس تک کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی نہ بنا سکے۔ ایسی فاش غلطیوں کے بعد صدر ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے کسی سنجیدہ حکمتِ عملی کی موجودگی بہت مشکل محسوس ہوتی ہے۔