22 فروری ، 2020
1996میں جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کی داغ بیل ڈالی تو اُن کے سامنے نہ صرف ماضی کی کئی جمہوری بلکہ آمرانہ حکومتوں کی واضح مثالیں بھی موجود تھیں۔
اُن حکومتوں اور حکمرانوں کی وہ غلطیاں، کمیاں اور خامیاں روزِ روشن کی طرح عیاں تھیں جو اُن کی ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ عمران خان کو چاہئے تھا کہ ماضی کی اِن مثالوں اور فاش غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا منشور بناتے جو کم از کم ماضی کی اُن غلطیوں کو نہ دہراتی مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے اور ایسی ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جس کی ماضی میں بھی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
خان صاحب نے برسرِ اقتدار آتے ہی انتقامی احتساب کی ایسی مہم چلائی کہ وہ صرف اُسی مہم کے ہو کر رہ گئے اور دیگر عوامی مسائل اُنکی توجہ کا مرکز نہ بن سکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان اُٹھا جو ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور عوام مجبوراً تحریک انصاف کے دورِ حکومت کا گزشتہ حکومتوں سے موازنہ کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اِس موازنے کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں واضح کمی ہو رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ایسی گھاگ سیاسی جماعتیں تھیں کہ وہ مہنگائی کے ایسے بحران کا طویل المدتی نہ سہی مگر عارضی حل ضرور نکال لیتی تھیں مگر بدقسمتی سے جب سے پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی کا ایوان سنبھالا ہے، ہر گزرتے دن کیساتھ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے اور آج صورتحال ایسی بن چکی ہے کہ ہر طرف مہنگائی کی بازگشت زبان زدِ عام ہے۔
امیر، غریب اور متوسط طبقہ، ہر کوئی مہنگائی کی چکی میں پِس رہا ہے۔ مہنگائی کی شرح گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح 14.6فیصد پر پہنچ چکی ہے جس کی وجہ سے عوام کے چہروں پر مایوسی ہی مایوسی ہے۔ اشیائے ضروریہ تو دور اشیائے خورونوش بھی اُن کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ بجلی، گیس، پانی کے بل معمولی تنخواہ والوں کو حکمرانوں کو کوسنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر اشیائے خورونوش کی بات کی جائے تو دال مونگ 22، چینی 18اور گوشت 13فیصد مہنگا ہوا۔ گزشتہ سال کی نسبت ٹماٹر 315، سبز مرچ 151، مٹر 54اور کھیرے 45 فیصد مہنگے ہوئے۔
فرمانِ شاہی ہے کہ ملک میں مہنگائی ضرور ہے لیکن مہنگائی کی شرح 2008میں پیپلز پارٹی اور 2013میں (ن) لیگ کے دور کی نسبت کم ہے۔ حکومت اور اُس کے انمول رتن مہنگائی کو بےقابو ہونے سے روکنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے مگر عوام کو یہ مشورے دیے جاتے ہیں کہ قوتِ برداشت میں اضافہ کریں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابل اپنے صبر کے پیمانے وسیع کریں مگر یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟
کم آمدنی والے، کم پڑھے لکھے اور سماج کی نچلی سطحوں سے تعلق رکھنے والے عوام کیلئے ملکی معیشت کے حالات کی نشانیاں ان اشیا کی قیمتوں کے اتار چڑھائو میں موجود ہیں جو وہ اپنی محدود آمدنیوں سے اپنے کنبوں کیلئے خریدتے ہیں۔
اگر آٹا، دال، روٹی، سبزی، گھی، مرچ مسالا، بجلی، گیس، پٹرول اور دوائوں کی قیمتوں میں اعتدال رہے تو غریب آدمی کی زندگی بھی آسودہ رہے۔ حکومت کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کی سہولتوں کا خیال رکھے اگر حکومت نے بھی عوام کو مہنگائی برداشت کرنے کا مشورہ ہی دینا ہے تو عوام آسانیوں کی امید سے کس کا منہ دیکھیں؟
ہمارے ہاں حکومتوں کی جانب سے ایک شکوہ یہ کیا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس دینا نہیں چاہتے اورسبسڈیز پر جینا چاہتے ہیں حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ پاکستان کے عوام کے حوصلوں کی داد دینی چاہئے کہ انہوں نے اب تک لگاتار قیمتوں کے اضافوں کو تحمل سے برداشت کیا کیونکہ وہ معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوؤں کو موقع دینا چاہتے ہیں۔
ان حالات میں جب حکومت عوام پر مالی بوجھ میں خاصا اضافہ کر چکی ہے، جب مہنگائی دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو عوام کو یہ طعنہ نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ٹیکس دینا نہیں چاہتے یا سبسڈی پر جینا چاہتے ہیں۔
بےقابو مہنگائی سے عوام کا جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے وہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے، ان کا کچھ بھی چھپا ہوا نہیں جس پر ٹیکس واجب الادا ہو۔
وزیراعظم کی نیت پر تو کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً وہ عام آدمی کی فلاح اور عوام کو ریلیف دینے میں سنجیدہ ہیں اور اِس حوالے سے سوچتے بھی ہیں اور تقریباً کابینہ کی ہر میٹنگ میں اس بارے میں بات بھی ہوتی ہے۔
جب وزیراعظم کسی ایک مسئلے پر اتنی سنجیدگی سے سوچ رہے ہوں، بات کرتے ہوں، ہدایات جاری کرتے ہوں، وہ مسئلہ عوام کا بنیادی مسئلہ بھی ہو، پھر اب تک حل کیوں نہ ہو سکا۔
ساری سرکاری مشینری مل کر بھی ایک مسئلہ حل نہ کر پائے تو اُس کی اہلیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اِس لئے حکومت کو اپنی صفیں درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔