22 فروری ، 2020
سیہون میں خاتون سے مبینہ زیادتی کیس کے ملزم جج امتیاز بھٹو نے امریکا سے ڈی این اے کرانے کی درخواست جمع کرا دی۔
ایڈیشنل سیشن جج کوٹری رحمت اللہ موریو کی عدالت میں خاتون سے زیادتی کیس کی سماعت ہوئی جس میں معطل ملزم جج امتیاز بھٹو پیش ہوئے۔
دوران سماعت ملزم کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کہ ان کے مؤکل کا ڈی این اے امریکا کی لیبارٹری سے کرانے کی اجازت دی جائے۔
اس پر جج رحمت اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آغا خان لیبارٹری بہتر نہیں؟ وہاں سے کروا لیں، وکیل نے جواب دیا کہ آغاخان خود مختار ادارہ ہے لیکن سرکاری اثر و رسوخ استعمال ہو سکتا ہے۔
اس پر ڈپٹی پراسیکیوٹر فیض الحسن نےکہا کہ بیرون ملک سے ڈی این اےکی درخواست محض تاخیری حربے ہیں۔
ملزم جج کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پاکستان میں ڈی این اے کروایا تو اس میں ردو بدل ہو سکتی ہے لہٰذا مرضی کی جگہ سے ٹیسٹ کرانا ہمارا حق ہے۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم جج ہماری سرکاری حدود میں رہتے ہوئے جہاں سے چاہیں ڈی این اے کرائے، اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس پر جج نے جواب دیا کہ کچھ کیس اسپیشل ہوتے ہیں، ملزم جج کے وکلاء بیرون ملک لیبارٹری کا نام اور خرچہ بتائیں۔
دوسری جانب پولیس نے کیس کی پیشرفت رپورٹ عدالت میں پیش کر دی ہے جس کے مطابق ملزم جج نے نہ اب تک کیس میں تعاون کیا ہے اور نہ ڈی این اے کرایا ہے، تفتیش کے لیے ڈی این ا ے کروانا ضروری ہے جب کہ درخواست گزار اور گواہوں کے بیان لیے جا چکے ہیں۔
تمام دلائل سننے کے بعد عدالت نے اسپیشل کیس قرار دیتے ہوئے ملزم جج امتیاز بھٹو کو مہلت دے دی۔
شہداد کوٹ میں سلمیٰ بروہی اور نثار بروہی پسند کی شادی کے لیے گھر سے فرار ہوکر سیہون کے ایک گیسٹ ہاؤس میں رہائش پذیر تھے جہاں 13 جنوری کو لڑکی کے اہل خانہ سیہون پہنچے اور دونوں کو پکڑ لیا۔
معاملہ پولیس تک جا پہنچا تو پولیس لڑکی کو بیان کے لیے سینئر جوڈیشنل مجسٹریٹ امتیاز بھٹو کے چیمبر میں لے گئی۔
ذرائع کے مطابق لیڈی پولیس اور عملے کو یہ کہہ کر عدالت سے باہر نکال دیا گیا کہ لڑکی کا بیان لینا ہے۔
جج نے لڑکی سے استفسار کیا کہ کیا وہ والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے یا شوہر کے ساتھ؟ جس پر لڑکی نے شوہر کے ساتھ جانے پر حامی بھری۔
رپورٹ کے مطابق جج نے خوف میں مبتلا لڑکی کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے چیمبر میں لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی کی۔
متاثرہ لڑکی کی شکایت پر سیہون پولیس نے لڑکی کا عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ میں میڈیکل کرایا جہاں لڑکی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔
بعدازاں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ احمد علی شیخ نے جوڈیشل مجسٹریٹ امتیاز حسین بھٹو کو معطل کر دیا اور انہیں سندھ ہائیکورٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی۔