23 فروری ، 2020
وزیراعظم عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کے اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی و معاشی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کی لہر سے عوام میں جو تشویش پائی جاتی ہے، انہیں اس کا احساس ہے لہٰذا مہنگائی کم کریں۔
انہوں نے کہا کہ ان کا اگلا ہدف مہنگائی پر قابو پانا ہے، ادارہ شماریات پاکستان کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق جنوری 2020ء میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا، یہ شرح 14.6فیصد رہی، دسمبر 2019ء میں مہنگائی کی شرح 12.6فیصد تھی جبکہ جنوری 2019ء میں 5.6فیصد۔
رپورٹ کے مطابق صرف ایک ماہ میں ہی اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، دال مونگ 19.74فیصد، دال ماش 10.3فیصد مہنگی ہوئی، دال چنا 18فیصد، مرغی 17.3فیصد اور گندم کی قیمت میں 12.63فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
تازہ سبزیوں کی قیمت میں 11فیصد اضافہ جبکہ چینی 5فیصد اور آٹا ساڑھے 7فیصد مہنگا ہوا، شہری علاقوں میں ایک سال میں ٹماٹر 158فیصد، پیاز 125فیصد، تازہ سبزیاں 93فیصد، آلو 87فیصد، چینی 86فیصد اور آٹا 24فیصد مہنگا ہوا، جبکہ دیہی علاقوں میں ایک سال میں ٹماٹر 211فیصد، پیاز 137فیصد، آلو 111فیصد، تازہ سبزیاں 104فیصد اور آٹا 25فیصد مہنگا ہوا۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ ہی کے مطابق ایک سال میں آٹا 25فیصد مہنگا ہوا جبکہ چینی کی قیمت میں 86فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ہنوز یہ اضافہ مسلسل جاری ہے، اس کے علاوہ گھی، بکرے کا گوشت، کوکنگ آئل اور خشک دودھ بھی مہنگا ہوا ہے۔
قصہ مختصر، روز مرہ استعمال کی تمام اشیاء کی قیمت کا گراف اوپر کی طرف جا رہا ہے، یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
پاکستان میں طلب کے مقابلے میں رسد کی بھی کمی ہے، حکومت اس میں توازن قائم کرنے کیلئے آئندہ منی بجٹ میں چند اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی کسٹمز ڈیوٹی کم کرنے اور درآمدات کھولنے پر غور کر رہی ہے۔
ٹیکس بڑھانے اور نئے ٹیکس لگانے کے باوجود ایف بی آر رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں مقررہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا، دوسری طرف اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی میں سود کی شرح 13.25فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، مہنگائی میں کمی کی امید میں اسٹیٹ بینک ایک عرصے سے شرح سود اس بلند سطح پر قائم رکھے ہوئے ہے لیکن امید بر نہیں آ رہی۔
معاشی ترقی کی رفتار بھی5.8 فیصد سے کم ہوکر 2 فیصد تک آپہنچی ہے یعنی آگے جانے کے بجائے اسے ریورس گیئر لگ چکا ہے، ملک میں گندم طلب سے زیادہ موجود تھی، حکومت نے اگست 2018ء سے اگست 2019ء کے دوران 7.5لاکھ ٹن گندم برآمد کر دی، اس کے علاوہ جو اسمگل ہوئی وہ الگ، نتیجہ ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو گیا اور حکومتی حلقوں میں بلیم گیم کا آغاز ہو گیا۔
وفاقی حکومت نے ملبہ سندھ حکومت پرڈالا، سندھ حکومت ٹرانسپورٹروں پر برس پڑی، بعض حکومتی حلقے تو سرے سے کسی بحران کو ماننے سے انکاری تھے، ایسے میں گندم کی کمی پوری کرنے کیلئے حکومت کو 3لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
اس ساری صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے شوگر مافیا بھی میدان میں آ گیا، چینی گوداموں میں ذخیرہ کرکے اس کے نرخ چند ہی روز میں 5سے 6روپے فی کلو تک بڑھا دیے گئے، حکومت نے بحران کے پیش نظر اب 3لاکھ ٹن چینی بھی فوری درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہی حال چند ماہ قبل ٹماٹر کا تھا، ٹماٹر کی قیمت میں کمال اضافہ دیکھنے میں آیا، بعض علاقوں میں قیمت 400روپے فی کلو تک جا پہنچی، ٹماٹر کی پیداوار میں موسمی حالات کی وجہ سے 40فیصد کمی ہوئی تھی، بھارت سے ٹماٹر کی درآمد پر بھی پابندی تھی لہٰذا ٹماٹر کی رسد میں کمی واقع ہو گئی، ایسے میں ٹماٹر کی طلب میں اضافہ ہوا اور قیمت بڑھ گئی۔
ستم یہ ہے کہ دوائیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، لوگوں کے لئے ادویات کا حصول مشکل ہو گیا، یعنی بیماری بھی مہنگی پڑنے لگی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافے کی کہانی بھی سب کے سامنے ہے، ڈالر کی قیمت بڑھی تو پٹرول کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی، ہر چیز کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا، پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث افراطِ زر نیچے آنا ممکن نہیں۔
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت خسارہ کم کرنے کیلئے بجلی، پانی، گیس سمیت تمام یوٹیلیٹی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں، نئے کاروباری مواقع میسر نہیں بلکہ جو پرانے کاروبار چل رہے تھے، وہ بھی بند ہونے کے درپے ہیں، جس کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور عام آدمی کی قوتِ خرید متاثر ہو رہی ہے۔
ایسے میں سینیٹ ممبران، سرکاری ملازمین کی خواہش ہے کہ ان کی تنخواہ اور مراعات میں 100 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کیا جائے کیونکہ مہنگائی ان پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم کو عوام کی مشکل کا اندازہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے، معاملات درست نہیں ہوتے، جناب وزیراعظم وقتاً فوقتاً عوام کو تسلی دیتے رہتے ہیں، اس وقت دلاسوں اور تسلی کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔
مہنگائی کا جن بوتل میں قید کرنے کیلئے صوبائی و وفاقی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، بعد از وقت واویلا اور اپنی ہی بدنظمی اور بدانتظامی سے ہڑبونگ مچانا عقلمندی نہیں ہوتی۔
نئے کاروبار شروع کرنے کیلئے آسان شرائط پر سرمایہ فراہم کیا جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، بہت سے معاملات میں صرف احساس ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس کا مداوا بھی مقصود ہوتا ہے، ناسور بننے سے پہلے ہی زخم کا علاج کر لینا بہتر ہوتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔