24 فروری ، 2020
موجودہ حکومت کی معیشت کی بحالی اور آئی ایم ایف قرضے کے معاہدے کے نتیجے میں کیے گئے اقدامات کی وجہ سے جو چیز واضح دیکھنے میں آئی ہے، وہ ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے جس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، غریب تو غریب سفید پوش انسانوں کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔
مختلف محفلوں میں مجھ سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے معاشی اعداد و شمار لکھنے سے کیا فائدہ، آپ مہنگائی پر حکومت اور پالیسی میکرز کی توجہ دلائیں کہ اسے کس طرح قابو کیا جا سکتا ہے۔
اخبارات میں جب یہ شہ سرخیاں لگیں کہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے افراط زر 12سال کی بلند ترین شرح 14.6فیصد پر پہنچ گیا ہے تو حکومتی وزرا نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گی مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
افراط زر میں ریکارڈ اضافے کی خبر سے کراچی اسٹاک ایکسچینج میں زبردست مندی دیکھی گئی۔ خطے کے ممالک میں مہنگائی یعنی افراط زر کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگلا دیش میں افراط زر 5.4فیصد، بھارت میں 4.2فیصد، سری لنکا میں 2.4فیصد، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان میں تقریباً 5فیصد ہے جبکہ ان ممالک میں مرکزی بینکوں کے پالیسی ریٹس پاکستان سے آدھے سے بھی کم ہیں۔
بھارتی مرکزی بینک کا پالیسی ریٹ 5.15فیصد، چین کا 4.35فیصد، سری لنکا کا 8فیصد، ملائیشیا کا 3فیصد، تھائی لینڈ کا 1.25فیصد، انڈونیشیا 6.5فیصد جبکہ پاکستان کا 13.25فیصد ہے۔
آئیے! ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی یا افراط زر کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں، مہنگائی، افراط زر یا انفلیشن یہ سب ایک ہی بیماری کے نام ہیں جسے کنزیومر پرائز انڈیکس (CPI) سے ناپا جاتا ہے۔
پرویز مشرف نے 2008ء انتخابی سال ہونے کی وجہ سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا حالانکہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں ریکارڈ 140ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں جس کی وجہ سے پرویز مشرف حکومت میں افراط زر 17فیصد کی شرح تک پہنچ گیا تھا جبکہ 2003سے 2010ء تک افراط زر اوسطاً 10.15فیصد رہا جو اب پی ٹی آئی دورِ حکومت میں بڑھ کر 14.6فیصد تک پہنچ چکا ہے جس کی وجہ کرنسی نوٹوں کی اضافی پرنٹنگ، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، بلواسطہ ٹیکسز، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، ملک کا سرمایہ دارانہ نظام، تاجروں اور صنعتکاروں کی ذخیرہ اندوزی، اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کرکے قیمتوں میں اضافہ۔
حکومت کی وفاقی، صوبائی اور ضلعی سطح پر ذخیرہ اندوزوں کیخلاف انتظامی ناکامیاں، پاکستانی روپے کی قدر میں گزشتہ ڈیڑھ سالوں میں تقریباً 50فیصد کمی اور امپورٹ پر ریگولیٹری کسٹم ڈیوٹی کے نفاذ کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل اور دیگر خام مال کی امپورٹ کی لاگت میں اضافہ، بینکوں کے شرح سود میں اضافے سے مالی اور پیداواری لاگت میں اضافہ، زرعی سیکٹر بالخصوص کاٹن، گیہوں اور گنے کی فصل اور خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹماٹر، پیاز، مٹر، مرچیں، گاجر، پالک کی قیمتوں میں 11سے 36فیصد اضافہ ہوا۔
چکن کی قیمت میں 17.5فیصد، انڈے 14فیصد، آٹا 13فیصد، دالوں کی قیمت میں 10فیصد اضافہ ملک میں مہنگائی کا اصل سبب بنا۔ نان فوڈ آئٹمز میں افراط زر کا جائزہ لیں تو ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 14فیصد، کپڑے اور جوتوں کی قیمتوں میں 10.5فیصد، ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کی سروسز میں 10.8فیصد اور دیگر خدمات کے شعبے میں 12.3 فیصد اضافہ ہوا۔
اس طرح فوڈ اور نان فوڈ اشیاء کی قیمتوں میں گزشتہ 3مہینوں دسمبر 2019ء میں 12.42فیصد، جنوری 2020ء میں 13فیصد اور فروری میں 14.3فیصد ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو گزشتہ 12سالوں میں ملک میں مہنگائی کی سب سے اونچی شرح ہے، جس میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ سرفہرست ہے۔
اگر آمدنی محدود ہو تو مہنگائی سے قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا مہنگائی سے مقابلے کیلئے عام آدمی کی آمدنی اور اجرتوں میں اضافہ ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کوئی ایسا میکنزم نہیں جس سے مہنگائی کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مہنگائی کے طوفان کو اگر قابو نہ کیا گیا تو غربت، بھوک اور بیروزگاری کے تباہ کن اثرات سے ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا ہونگے۔ پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک جانا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گیا ہے۔ میرا وزیراعظم اور پالیسی میکرز کو مشورہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں کو خصوصی طور پر کنٹرول کیا جائے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ موجودہ مہنگائی میں کوئی سیاسی حکومت نہیں چل سکتی، مہنگائی کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہے، اس کے خاتمے کیلئے فوری ایکشن کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کا یہ کہہ دینا کہ مہنگائی میں مافیا ملوث ہے، ناکافی ہے۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح پالیسیوں اور انتظامی کنٹرول کے ذریعے صارفین کو اشیا سستے نرخوں پر فراہم کرے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔