25 فروری ، 2020
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شہریت کے متنازع قانون کےخلاف احتجاج کے دوران ہنگاموں میں ہلاکتوں کی تعداد 11 ہوگئی۔
بھارتی حکومت نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو قابو میں رکھنے کے لیے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا جہاں پیرا ملٹری فورسز کی 35 کمپنیاں تعینات کی گئی ہیں۔
علاقےمیں اسپیشل سیل، کرائم برانچ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے جب کہ مقامی پولیس کی اضافی نفری بھی طلب کرلی گئی ہے۔
نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں اتوار سے جاری ہنگاموں میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
نئی دہلی پولیس کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ پرتشدد واقعات میں اب تک 11 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
نئی دہلی کے گرو تیج بہادر اسپتال کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ ہنگاموں میں 9 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں پولیس اہلکار رتن لال بھی شامل ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق شمال مشرقی علاقوں میں پرتشدد واقعات میں نیم فوجی دستوں اور پولیس کے کئی اہلکاروں سمیت 135 افراد زخمی ہو ئے ہیں۔
گرو تیج بہادر اسپتال کے حکام نے بتایا کہ اسپتال میں 31 افراد کو لایا گیا جس میں سے 10 کی حالت تشویشناک ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق موج پور اور بابر پور کے علاقوں میں پرتشدد احتجاج جاری ہے جب کہ فائر بریگیڈ کے عملے کو بھجن پورا کے علاقے سے آتشزدگی کی 45 کالیں موصول ہوئیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی پولیس نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے پورے شمال مشرقی ضلعے میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری حکمنامے میں ہتھیار یا کسی بھی آتشی اشیاء کے استعمال پر پابندی لگادی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی مذہبی منافرت پھیلانے، حساس اور اشتعال انگیز مواد شیئر کرنے پر بھی پابندی عائد کی ہے۔
پولیس کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص مذکورہ احکامات کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
قبل ازیں دہلی میں فسادات کے بعد بھارت کے یونین وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا جس میں نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروِند کجریوال نے بھی شرکت کی۔
نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروِند کجریوال نے شہریوں سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہےکہ کئی پولیس اہلکار اور عام شہری زخمی اور اپنی جان گنواچکے ہیں، کئی گھروں اور دکانوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ انہیں آگ بھی لگائی گئی، یہ سب انتہائی بدقسمتی ہے۔
اروِند کجریوال نے اپیل کی کہ مندروں اور مساجد کے اِرد گِرد رہنے والے شہری امن برقرار رکھیں۔
دوسری جانب شہر کی انتہائی خراب صورتحال کے پیش نظر نئی دہلی حکام نے شہری کے بھر کے اسپتالوں کے عملے کو الرٹ کردیا ہے جب کہ فائر بریگیڈ حکام کو پولیس سے رابطہ رکھنے اور متاثرہ مقامات پر فوری طور پر پہنچنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
گزشتہ روز 24 فروری کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے سے قبل انتہاپسند آپے سے باہر ہوگئے اور متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پِل پڑے۔
24 فروری کو دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں شروع ہونے والی جھڑپوں میں اُس وقت تیزی آئی جب متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر مختلف علاقوں میں وزیراعظم نریندر مودی کے حامیوں نے حملے کیے۔
شمال مشرقی دہلی کے جعفرآباد اور موج پور سمیت مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین نے متعدد دکانوں، مکانات، گاڑیوں اور فائرٹینڈر کو آگ لگادی۔
اُدھر دہلی کے وزیرتعلیم نے شمال مشرقی علاقوں کے تمام اسکولز بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
منیش سیسوڈیا کا کہنا ہے کہ کشیدہ حالات کے باعث بورڈ کے امتحانات منسوخ کردیے گئے اور کل تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔