26 فروری ، 2020
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سب کچھ ہی کنٹرول کر لیا جائے گا تو پھر اخبار اور مشتہر اداروں کے درمیان تعلقات بھی کمزور پڑ جائیں گے۔
کیا یہ سارا بوجھ حکومت، وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات اکیلے سہار پائے گی۔ بہت ساری مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ سرکاری اشتہارات جہاں اخبار کی بنیادی ضرورت اور حق ہے وہاں حکومت کی مجبوری بھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی تازہ مثالیں ہی کافی ہیں۔ انتخابی فہرستوں میں نئے ووٹوں کے اندراج و پتا تبدیلی کی مہم تو شروع کر دی گئی لیکن کانوں کان کسی کو خبر نہ ہوئی۔
دور دراز علاقوں میں تو شاید کسی کو پتا بھی نہیں چلا کہ کہاں ووٹ بنوانے جانا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے؟ اخبارات نے بھی اس مہم پر کوئی توجہ نہ دی اور الیکشن کمیشن کے ترجمان کے بیان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ نتیجہ کیا نکلا؟ یہی صورت حال یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی ہے۔
وزیراعظم نے سات ارب، پندرہ ارب کے ریلیف اور رمضان پیکیج کے بڑے بڑے اعلانات تو کر دیئے مگر کسی کو کیا پتا کہ کس علاقے میں کہاں یوٹیلیٹی اسٹور ہے اور کتنے بجے کھلتا، بند ہوتا ہے۔ عام مارکیٹ سے قیمتوں میں کتنی کمی کا فرق ہے؟ کوئی پچاس روپے کے فائدے کی خاطر سو روپے کا پٹرول لگا کر دور دراز کسی یوٹیلیٹی اسٹور پر کیوں جائے؟
جب تک آپ اخباری اشتہاری مہم نہیں چلائیں گے آپ کو کبھی بھی اس فراخ دلی کے مثبت نتائج نہیں مل سکتے؟ کیا اربوں روپے کی سبسڈی کے ساتھ دو تین کروڑ روپے کی اخباری اشتہاری مہم سے جانے والا پیغام کوئی مہنگا سودا ہے؟ اخباری اشتہاری مہم کا تذکرہ بار بار اس لئے ضروری ہے کہ چینل پر چلنے والا اشتہار چند سیکنڈ کے بعد اسکرین سے ہٹ جاتا ہے، کسی نے دیکھا نہ دیکھا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
قومی و علاقائی اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہار کی اہمیت، دورانیہ اور افادیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہی مثال قومی سلامتی کے اداروں کی نئی بھرتیوں کے اشتہارات کے بارے میں بھی دی جا سکتی ہے۔ آپ جب بنیادی حقوق، جمہوریت کی بات کریں گے تو وہاں آزاد میڈیا کی بات سب سے پہلے ہوگی۔ اس کا جواب ہر پلیٹ فارم پر دینا پڑے گا۔
آزاد میڈیا کی سانسیں روکنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اخبارات کی معاشی آزادی چھین لی جائے۔ پرنٹ میڈیا کی تباہی، باہمی رنجشیں، سازشیں، کاروباری رقابتیں، مفادات کی جنگ بس ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔
اب تو صورت حال اس حد تک گمبھیر ہو چکی ہے کہ افسران بلیک میلروں کے خوف سے اشتہارات کی تقسیم پر مجبور ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں ایسی بےشمار مثالیں موجود ہیں کہ گمنام اخبارات محض ایک معمولی خبر سے کسی بھی افسر کی پگڑی اُچھال کر شکوک و شبہات کا ایسا جال بنتے ہیں کہ مجبوراً حقیقی اخبارات کا حق مار کر گمنام اخبارات کو اشتہارات جاری کئے جارہے ہیں۔
اب افسران عدالتوں کے چکر لگائیں، اپنی عزت بچائیں یا ملازمت جیسی صورتحال درپیش ہے، سینٹ، مجلس قائمہ برائے اطلاعات و نشریات کی میڈیا ورکرز کی تنخواہوں اور بقایا جات کی ادائیگیوں کے حوالے سے کوششیں انتہائی قابلِ ستائش اقدام ہے لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے بحران کو صرف الیکٹرونک میڈیا کا بحران تصور کر لیا گیا ہے۔
تنخواہوں کی ادائیگیوں پر زور تو دیا جارہا ہے لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ذمے اخبارات کے اربوں روپے کے بقایا جات کی ادائیگی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام حکومتیں سابقہ اور موجودہ ادوار کے تمام بقایا جات گارنٹی کے ساتھ یکمشت اداروں کو پہلے ادا کریں پھر تنخواہوں کی ادائیگیوں کی ضمانت حاصل کریں۔
عدلیہ سے بھی یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جہاں عام آدمی کو انصاف اور اس کا حق دلانے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اخبارات کے بقایا جات کی ادائیگی کے بارے میں بھی کوئی تاریخی فیصلہ سنا کر ہزاروں صحافتی کارکنوں اور میڈیا مالکان کی دعائیں سمیٹے۔ وزیراعظم عمران خان بھی ایک قدم آگے بڑھیں، قومی و علاقائی اخبارات کے ایڈیٹرز و مالکان سے براہ راست ہر ماہ نہیں تو کم از کم دوماہ میں ایک بار ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں۔
ان ملاقاتوں میں اے پی این ایس اور سی پی این ای کی ایگزیکٹو کمیٹیوں سے ملاقاتیں ماضی میں اولین ترجیحات میں شامل تھیں۔ جس سے بڑے بڑے بحرانوں پر براہ راست مکالمہ ہوتا اور ان کے حل میں آسانی پیدا ہوتی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے نامعلوم مشیروں نے انہیں صرف مخصوص رپورٹرز تک محدود کر دیا ہے اور وہ ایڈیٹرز اور مالکان کے بجائے رپورٹر اور اینکر پرسنز سے ملاقاتوں اور رابطہ کاری کو سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں جبکہ میڈیا کی اصل قوت ایڈیٹرز یا اخباری مالکان ہی ہیں جن کی پالیسی اور سوچ ہی اس کے ادارے کی پہچان ہوتی ہے۔ اس حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سوشل، الیکٹرونک میڈیا کے باہر سوچنے کو تیار نہیں۔
ہمارا کام رہنمائی کرنا، آگاہی دینا ہے سو ہم کررہے ہیں باقی حکومت جانے یا اس کے غیرسیاسی، غیراہم دوست لیکن غلط حکمت عملی سے اچھے نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔