26 فروری ، 2020
نئی دہلی: بھارتی حکومت کے متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہونے والے فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 23 ہوگئی ہے جب کہ 233 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی کی ہائیکورٹ نے شہر میں ہونے والے فسادات پر رات گئے ہنگامی سماعت کی اور پولیس کو شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کی جب کہ عدالت نے فسادات میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی حکام نے صورتحال معمول پر آنے کا دعویٰ کیا ہے جس کے بعد نئی دہلی میں دو روز سے بند میٹرو سروس اسٹیشنوں کو کھول دیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جعفر آباد، موج پور، بابرپور اور گوکل پوری کے میٹرو اسٹیشنوں کو دو روز تک بند رکھا گیا تھا ۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہےکہ حکومت نے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کو نئی دہلی کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کا ٹاسک سونپا ہے جس کے بعد اجیت دوول نے منگل کی رات جعفر آباد، سیلام پور اور دہلی کے متاثرہ شمال مشرقی علاقوں کا دورہ کیا۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں اب بھی صورتحال کشیدہ ہے اور بدھ کی صبح گوکل پوری کی ایک مارکیٹ میں دکان کو آگ لگادی گئی۔
نئی دہلی کے گرو تیج بہادر اسپتال کے ایک سینئر اہلکار نے ہنگاموں میں 21 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے جب کہ تین روز کے دوران زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 189 ہے۔
نئی دہلی کے لوک نائیک اسپتال میں 2 افراد کی لاشیں لائی گئی ہیں جب کہ 44 زخمی افراد کو طبی امداد فراہم کی گئی ۔
گرو تیج بہادر اسپتال انتظامیہ کے مطابق مرنے والے افراد کو فائرنگ کرکے اور شدید تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔
شہر کی کشیدہ صورتحال کے پیش نظر دیگر حساس علاقوں میں بھی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے جہاں فورسز کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
نئی دہلی کےوزیر اعلیٰ اروِند کجریوال نے شہر میں فوج بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ شہر کی صورتحال پولیس کے قابو سے باہر ہے، فوج بلانے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھیں گے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق دہلی پولیس نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے پورے شمال مشرقی ضلعے میں دفعہ 144 نافذ کردی ہے۔
پولیس کی جانب سے جاری حکمنامے میں ہتھیار یا کسی بھی آتشی اشیاء کے استعمال پر پابندی لگادی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی مذہبی منافرت پھیلانے، حساس اور اشتعال انگیز مواد شیئر کرنے پر بھی پابندی عائد کی ہے۔
پولیس کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص مذکورہ احکامات کی خلاف ورزی کرتا پایا گیا تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
اس قانون کے ذریعے بھارت میں موجود بڑی تعداد میں آباد مسلمان بنگلا دیشی مہاجرین کی بے دخلی کا بھی خدشہ ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
پنجاب، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش سمیت کئی بھارتی ریاستیں شہریت کے متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کرچکی ہیں جب کہ بھارتی ریاست کیرالہ اس قانون کو سپریم کورٹ لے گئی ہے۔