26 فروری ، 2020
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی اور پیپلز پارٹی کے رکن عبدالقادر پٹیل کے درمیان کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی۔
خیال رہے کہ اتوار 16 فروری کی شام سے کراچی کے علاقے کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس کے اخراج سے دو روز کے دوان 14 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جب کہ 132 سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے۔
10 روز گزرنے کے باوجود کیماڑی میں مبینہ زہریلی گیس پھیلنے کی وجوہات تاحال سامنے نہیں آسکی ہیں۔
ادھر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امور کے اجلاس میں بیان دیتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ ممکنہ وجوہات میں سے ایک کسٹم ہاؤس کی بیسمنٹ کی دوسری جانب موجود ٹینک ہوسکتے ہیں۔
وفاقی وزیر کاکہنا تھاکہ کیماڑی میں ہلاکتیں سویابین کی گرد سے نہیں ہوئیں، تحقیقات کے لیے پاکستان نیوی کی بائیو لوجیکل اینڈ کیمیکل ڈیمیج کنٹرول(این بی سی ڈی) ٹیم سے مدد مانگی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو بھی تحقیقاتی ادارہ ہے اسے وجوہات معلوم کرنی چاہئیں۔
علی زیدی کا یہ بھی کہنا تھا کہ سوچے سمجھے بغیر سویابین کی گرد کا نام لے کر افراتفری پھیلائی گئی،جب کہ متاثرین آنکھوں کی جلن،الٹی، معدے کا درد اور گلا سوکھنے کی شکایت کے ساتھ اسپتال پہنچے تھے۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنما اور کیماڑی کے حلقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ حکومت گیس پھیلنے کی وجوہات جاننے میں ناکام رہی ہے۔
اس بات پر دونوں کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، علی زیدی کا کہنا تھا کہ اپنے وزیراعلٰی سے پوچھیں گیس کیوں پھیلی، سارا ملبہ وفاقی حکومت پر نہیں ڈال سکتے ،سویا بین کا جہاز امریکا سے پاکستان سیکیورٹی کلیئرنس کے ساتھ آیا تھا۔
بعد ازاں جیو نیوز سے گفتگو میں علی زیدی کا کہنا تھا کہ سویابین سے لدے جہاز پر موجود 35افراد میں سے ایک بھی متاثر نہیں ہوا، تحقیقاتی رپورٹس کا انتظار ہے ،نیوی کی ٹیم سمیت کسی ادارے کی رپورٹ اب تک نہیں ملی ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں جو بھی ہوا مرنے والے افراد کے لواحقین اور قوم کو آگاہ کیاجائے گا۔
عبدالقادر پٹیل نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ انہیں امید تھی کہ آج علی زیدی قائمہ کمیٹی میں ہلاکتوں کا سبب بتائیں گے مگر وہ آج بھی کمیٹی کے اجلاس میں آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔
عبدالقادر پٹیل نے مزید کہا کہ زہریلی گیس سے متاثرہ آبادیاں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی حدود میں ہیں اور اس معاملے میں سندھ حکومت کی ذمہ داری نہیں بنتی۔