28 فروری ، 2020
مقامی میڈیا اور عالمی سوشل میڈیا گروپس کے دباؤ پر حکومت نے ایک اور یوٹرن لے لیا اور نئے سوشل میڈیا قانون پر عمل درآمد روکنے کا فیصلہ کرلیا۔
ایشیائی انٹرنیٹ کولیش گروپ (اے آئی سی) نے سوشل میڈیا ریگولیش کے حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا سے متعلق نئے قوانین پر عمل اے آئی سی کے لیے مشکل ہے۔
خط کے مطابق اِن قوانین سے عام صارف اور کاروباری حضرات بھی متاثر ہوں گے جبکہ گوگل، فیس بک اور ٹوئٹرسروس بند ہونے سے 7 کروڑ صارف متاثر ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق 15 فروری کو ایشیائی انٹرنیٹ کولیشن گروپ کے نئے سوشل میڈیا قوانین پر لکھے گئے سخت تحفظات کے خط اور ملک میں صحافتی اور سوشل میڈیا تنظمیوں کے احتجاج کے بعد وزیراعظم نے ان قوانین پر نظرثانی کی ہدایت کی ہے۔
ذرائع کاکہنا ہےکہ وفاقی حکومت نے نئے سوشل میڈیا قوانین پر عمل درآمد روکنے کا فیصلہ کیا ہے اور نئے سوشل میڈیا قوانین پر نظرثانی اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) میجر جنرل ریٹائرڈ عامر عظیم باجوہ کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جو 2 ہفتوں میں وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ تانیہ ایدرس، سوشل میڈیا فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان اور ایڈیشنل سیکرٹری وزارت آئی ٹی بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔
وفاقی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی تمام شراکت داروں سے وسیع مشاورت کرے گی جبکہ ذرائع کا کہنا ہےکہ مشاورتی عمل میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور بیرسٹر علی ظفر کو بھی شامل کیا جائے گا۔
وزارت آئی ٹی حکام نے نئے سوشل میڈیا قوانین کے جائزہ کے لیے کمیٹی کی تشکیل کی تصدیق کرتے ہوئے بتایاکہ نئے سوشل میڈیا قوانین پر عمل درآمد روک کر 4 رکنی کمیٹی بنادی گئی ہے جو پیر سے مشاورتی عمل شروع کرکے ان قوانین کاجائزہ لے گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ نے نئے سوشل میڈیا قوانین کی منظوری دی تھی۔
نئے قوانین کے مطابق تمام عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی 3 ماہ میں پاکستان میں رجسٹریشن لازمی قرار دی گئی تھی جس کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک اور ڈیلی موشن سمیت دیگر تمام کمپنیوں کو 3 ماہ میں رجسٹریشن کرانا ہوگی۔
نئے قواعد کی رو سے تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے 3 ماہ میں اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے جب کہ ان پر پاکستان میں رابطہ افسر تعینات کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔
نئے قوانین کے تحت یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پربنائے جانےوالے مقامی پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بنانے ہوں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے قومی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف بات کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکے گی۔
سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بنانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ اتھارٹی ہراسانی، اداروں کو نشانہ بنانے اور ممنوعہ مواد کی شکایت پر اکاؤنٹ بند کر سکے گی ۔
اس کے علاوہ نئے قوانین کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف ویڈیوز نہ ہٹانے پر ایکشن بھی لیا جائے گا اور اگر کمپنیوں نے تعاون نہ کیا تو ان کی سروسز معطل کر دی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق اگر کمپنیوں نے قواعد پر عمل نہ کیا تو 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
اس حوالے سے حکام وزارت آئی ٹی کا کہنا تھا کہ نئے قوانین کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا حصہ بنادیاگیا ہے اور ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے۔
آئی ٹی حکام کی جانب سے تصدیق کی گئی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ادارے قابل اعتراض مواد پر کارروائی کرسکیں گے تاہم اب ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے مذکورہ قوانین پر عمل درآمد روک دیا ہے۔