دنیا
Time 04 مارچ ، 2020

امریکی صدر کا طالبان رہنما ملا برادر کو فون

امریکی صدر  ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنما ملا برادر کی فون پر گفتگو ہوئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان کے چیف مذاکرات کار ملا برادر اخوند کو ٹیلی فون کیا۔

خبر ایجنسی کے مطابق امریکی صدر اور طالبان رہنما کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کی اطلاع پہلے طالبان کے ترجمان نے ٹوئٹر کے ذریعے دی تاہم بعد میں امریکی صدر کی جانب سے بھی اس کی تصدیق کی گئی۔

امریکی صدر اور طالبان رہنما کے درمیان یہ ٹیلی فونک رابطہ دوحہ میں امریکا افغان امن معاہدے کے تین روز بعد ہوا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کےمطابق امریکی صدر اور طالبان رہنما کے درمیان تقریباً 35 منٹ گفتگو ہوئی جس میں ملا برادر کا کہنا تھا کہ یہ افغانیوں کا حق ہے کہ معاہدے کے تمام نکات پر جلد سے جلد عملدرآمد کیا جائے، اس سے افغانستان میں امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ جلد ہی امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو افغان صدر اشرف غنی سے بات کرنے کا کہیں گے تاکہ انٹرا افغان مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور ہوجائیں۔

ملا برادر سے اچھے تعلقات ہیں: ٹرمپ

دوسری جانب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے بتایا کہ میرے ملا برادر سے بہت اچھے تعلقات ہیں، ہم دونوں کے درمیان بہت اچھی گفتگو ہوئی، وہ اور ہم اس معاملے کو ختم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں اور میں ملا بردار کے ساتھ ہوں، ہم نے کافی طویل اور اچھی گفتگو کی۔

واضح رہے کہ دوحہ سمجھوتے کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کےبدلے طالبان کو ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں لیکن افغان صدر کی جانب سے 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی سے انکار کے بعد طالبان نے انٹراافغان مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ 

طالبان نے کابل سے دوحہ بھیجے جانے والے 6 رکنی وفد سے ملاقات بھی نہیں کی اور کہا ملاقات صرف قیدیوں کی رہائی سے متعلق بااختیار افراد سے ہی کی جائے گی

امریکا اور طالبان معاہدہ

29 فروری کو دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔

معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔

معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔

معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔

معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔

مزید خبریں :