09 مارچ ، 2020
کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر کی صنعتوں کی پیداوار متاثر ہونے سے تیل کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گذشتہ چند برسوں میں کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب تیل پیدا کرنے والے اہم ملک روس نے سعودی عرب کی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے 14 ممالک کی تنظیم اوپیک کا مطالبہ منظور کرنے سے انکار کردیا۔
اوپیک کا مطالبہ تھا کہ کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر کی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں، خاص طور پر سیاحت اور ائیر لائنز کا شعبہ شدید متاثر ہوا ہے جس کے باعث تیل کی مانگ میں بھی کمی آئی ہے۔
سعودی عرب چاہتا تھا کہ اوپیک سمیت روس جو کہ اوپیک کا رکن نہیں ہے ، تیل کی پیداوار میں کمی کردے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں برقرار رکھی جاسکیں تاہم روس کے انکار کے بعد اوپیک ممالک نے بھی خام تیل کی پیداوار میں کمی سے انکار کردیا۔
سعودی عرب اور روس میں خام تیل کی قیمت کی جنگ چھڑنے کے بعد دوران ٹریڈنگ برینٹ کروڈ کی قیمت 20 فیصد سے زائد کی کمی کے ساتھ 35.36 ڈالر فی بیرل کی سطح پر آگئی جب کہ امریکی خام تیل کی قیمت 22 فیصد تک کمی کے بعد 31.79 ڈالر فی بیرل پر آگئی ۔
تیل کی قیمتیں 1991 کی خلیج جنگ کے بعد اب تک سب سے زیادہ گراوٹ کا شکار ہیں جس کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس بھی مندی کا شکار ہیں۔
امریکی سرمایہ کار کمپنی گولڈمین ساکس نے پیش گوئی کی ہے کہ تیل کی قیمتیں 20 ڈالر فی بیرل تک گرسکتی ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان میں ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت20 روپےفی لیٹر تک کم ہو سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں موجودہ کم سطح پربرقرار رہیں تو معقول ٹیکس وصولیوں کے ساتھ یکم اپریل سے پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت باآسانی20 روپے لیٹر تک کم کی جا سکتی ہے۔
فرنس آئل کی قیمت میں کمی سے تیل پر چلنے والے بجلی گھروں سے بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی گرسکتی ہے جب کہ سی این جی کی قیمت میں بھی 20 روپے فی کلو کمی ممکن ہے جس کے باعث صنعتوں کو بھی کم قیمت میں گیس دی جاسکتی ہے۔
ایسی صورتحال میں ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہتر اور روپے کی قدر مستحکم ہو سکتی ہے اور پاکستان جیسے ملکوں میں مہنگائی میں کمی کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔