09 مارچ ، 2020
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دوسری مدت کے لیے عہدے کا حلف اٹھا لیا تاہم ان کے حریف سیاستدان اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے متوازی حکومت بنانے کا اعلان کرتے ہوئے خود بھی ایک تقریب منعقد کرکے 'صدارت' کا حلف اٹھا لیا۔
اشرف غنی کی تقریب حلف برداری افغانستان کے دارالحکومت کابل کے صدارتی محل میں ہوئی۔
طلوع نیوز کے مطابق اشرف غنی کی صدارتی حلف کی تقریب میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد، امریکی ناظم الامور روس ولسن، امریکی و نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر، یورپی یونین، کینیڈا، آسٹریلیا، ڈنمارک، جرمنی اور ناروے کے سفراء بھی موجود تھے۔
اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں چند اہم مقامی سیاسی رہنماؤں جن میں سابق صدر حامد کرزئی، سابق جہادی رہنما عبدالرب رسول اورنائب صدر یونس قانونی غیر حاضر تھے۔
اس تقریب کے دوران کابل میں دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں، اشرف غنی کے خطاب کے دوران پارکنگ ایریا میں بھی ایک راکٹ آکر گرا جس کے باعث تقریب میں معمولی سی بھگدڑ مچی تاہم اس دوران افغان صدر ڈٹے رہے اور خطاب جاری رکھا۔
راکٹ گرنے سے افغانستان کے نائب صدر دوئم سرور دانش کی گاڑی کو نقصان پہنچا۔
افغان صدر نے خطاب کے دوران زیب تن کی ہوئی واسکٹ کو ہٹاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن رکھی اور جسم پر صرف قمیض ہے، وہ عوام اور افغانستان کے لیے جان قربان کرنے کو تیار ہیں۔
اشرف غنی نے افغان طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ افغان حکومتی مذاکراتی ٹیم منگل تک بنا دی جائے گی اور امن عمل سے متعلق منگل کو صدارتی حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔
غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرز کے مطابق تقریب کے دوران راکٹ حملے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے قبول کی ہے۔
دوسری جانب اشرف غنی کے حریف اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے الگ سے رہائشی سپیدار محل میں ایک تقریب منعقد کرکے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا جس کے بعد صدارتی عہدے کا معاملہ گھمبیر ہو گیا ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
خیال رہے کہ افغان الیکشن کمیشن نے 18 فروری کو صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کیا تھا جس میں اشرف غنی کامیاب ٹھہرے تھے۔
افغان الیکشن کمیشن کے مطابق اشرف غنی نے 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ مدمقابل عبداللہ عبداللہ نے 39.52 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔
افغان آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے کامیاب امیدوار کے اعلان کے بعد 30 روز میں حلف اٹھانا لازمی ہے۔
چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا اور اسے فراڈ قرار دیا تھا۔
طلوع نیوز کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی زلمی خلیل زاد کی جانب سے بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان گزشتہ رات تک معاملات طے کرانے کی کوششیں کی گئیں تاہم ان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ گزشتہ رات عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان بھی علیحدگی میں ملاقات ہوئی جس میں کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا جس کے بعد آج عبداللہ عبداللہ نے بھی صدارت کا حلف اٹھالیا۔
خود ساختہ تقریب حلف برداری کے بعد خطاب میں عبداللہ عبداللہ کا کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے عزم پرقائم ہیں اور فراڈ سے بننے والی حکومت کو قبول نہیں کریں گے، ہماری حکومت آج سے کام شروع کر دے گی اور ہماری حکومت گورننس میں اصلاحات کو یقینی بنائے گی۔'
غیرملکی افواج کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ غیرملکی فوجیں افغانستان میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہ سکتیں، غیرملکی افواج کا افغانستان سے ذمہ دارانہ انخلاء ضروری ہے۔
طلوع نیوز کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے عبداللہ عبداللہ کو پاور شیئرنگ کے ساتھ ساتھ مختلف عہدوں کی بھی پیشکش کی گئی۔
اشرف غنی نے عبداللہ عبداللہ اور ان کے اتحادیوں کو کابینہ میں 40 فیصد نمائندگی، ایک نیشنل سیکیورٹی کونسل کا رکن اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی سپریم امن کونسل کی چیئرمین شپ کی بھی پیشکش کی تھی۔
تاہم دونوں میں کوئی معاہدہ نہ ہوسکا جس کے باعث عبداللہ عبداللہ نے متوازی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ افغانستان میں 2001 کے بعد صدارتی انتخابات کا کم ترین ووٹر ٹرن آؤٹ 2019 کے انتخابات میں رہا جہاں 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے صرف 22 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔