بلاگ
Time 12 مارچ ، 2020

حقوقِ نسواں: روایتی و جدید فکر

بدقسمتی سے روایت پرست خطوں کی عورت آج 21ویں صدی میں بھی اس کا شکار ہے—فوٹو فائل

خواتین مارچ تو 8مارچ کا گزر چکا مگر اس پر مباحث ہنوز جاری و ساری ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم اس مسئلہ پر دو گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک روایتی طبقہ ہے جو خود کو مذہب پسند قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا جدیدیت کا علمبردار طبقہ ہے جو خود کو روشن خیال سمجھتا ہے۔ معاشرے میں خواتین کی حیثیت و مقام کے حوالے سے دونوں کی ترجیحات میں فرق ضرور ہے لیکن خواتین کی عزت و حرمت سے متعلق بظاہر انکار کسی کو بھی نہیں ہے۔

روایتی طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مسئلہ حقوق و فرائض کا ہو یا مقام و مرتبے کا، ہمیں رہنمائی بہرحال کتاب و سنہ سے لینی ہے۔ قرآن و حدیث میں خواتین کے متعلق 14سو سال پہلے جو کچھ کہہ دیا گیا ہے وہ حرفِ آخر ہے، ہمیں اس میں قطع و برید کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر قرآن شریف نے وراثت میں عورت کا حصہ آدھا رکھا ہے یا اس کی گواہی اسلامی قانونِ شہادت میں مرد کے مقابل آدھی رکھی گئی ہے تو پھر آدھی ہی رہے گی، اس عظیم ترین سند کے مقابلے پر لاکھ دلیلیں بھی بیکار ہیں۔ ا

سی طرح خواتین کے لیے پردے یا حجاب کے جس معیار پر آج وہ اصرار کرتے ہیں اُن کا نظریہ یہ ہے کہ یہ معیار ہم نے نہیں بلکہ پروردگارِ عالم نے ابدی طور پر مقرر کر دیا ہے جس سے انحراف کی سرمو گنجائش نہیں ہے۔ درویش کی نئی نئی شادی ہوئی تو انہی دنوں محترم میاں طفیل محمد (سابق امیر جماعت اسلامی) سے ملنے گئے، پوچھنے لگے کہ کیا آپ کی بیگم صاحبہ پردہ کرتی ہیں؟ عرض کی، میاں صاحب آپ جانتے ہیں کہ وہ گائنی کی ڈاکٹر ہیں، جب گاؤں جاتا ہوں تو گزارش کرتا ہوں کہ سر پر پلو رکھ لیا کریں کہ یہ مذہبی شعار ہے۔ سختی کے ساتھ فی البدیہہ بولے، افضال ریحان صاحب! یہ اسلامی شعار نہیں ہے، اللہ پاک کا صریح حکم ہے جس کی ہر مسلمان عورت کو پابندی کرنی چاہئے۔

اس روایتی فکر کے حاملین خواتین و حضرات کو اگر آج ہماری ماڈریٹ خواتین کے مارچ میں کچھ برائیاں نظر آتی ہیں تو وہ بنیادی طور پر شرعی و دینی تقاضوں کے حوالے سے ہیں۔ 

پاکیزگی کا معیاری تصور یہی ہے کہ وہ عام سے عام معاملات میں بھی شرعی تقاضوں کو حرزِ جان بنائیں، بناؤ سنگھار سے پرہیز کریں، اگر زینت اختیار کرنی بھی ہے تو وہ صرف اپنے خاوند کے لیے ہونی چاہئے حتیٰ کہ انہیں خوشبو لگا کر گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہئے بلکہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں گھروں سے باہر نکلنے سے ہی احتراز کرنا چاہئے اگر بصورتِ مجبوری نکلنا پڑ جائے تو پھر شرعی تقاضوں یعنی حجاب وغیرہ کی پوری پابندی کے ساتھ نکلنا چاہئے۔ اس مقدس سوچ کے ساتھ بھلا کسی ایسے عورت مارچ کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے جس میں نوجوان لڑکے بھی دندناتے پھر رہے ہوں۔

اس کے بعد بات نعروں کی آجاتی ہے جو تقریباً سارے کے سارے عورتوں کو مردوں کے خلاف باغیانہ خیالات پر ابھارتے ہیں اور یہ نعرہ تو ہمارے روایتی طبقے کو کسی صورت قابلِ قبول ہو ہی نہیں سکتا کہ ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘۔ اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ اے ماڈرن عورتو! ایسے شتر بےمہار آزادی والے نعرے سے باز آجاؤ اس کے بجائے تم یہ کہو کہ ’’میرا جسم، اللہ پاک کی مرضی‘‘۔ ہر شخص کا سب سے پہلا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ اپنے پانچ یا چھ فُٹے جسم پر اپنے خالق و مالکِ حقیقی کی مرضی لاگو کرے اگر عملی کوتاہی ہو بھی جاتی ہے تب بھی کوشش یہی ہونی چاہئے۔ اگر خدا نے کہا ہے کہ اپنے اس جسم کو برقع یا حجاب میں رکھو تو تم سب پابند ہو کہ اس ابدی حکم کی پابندی و پیروی کرو۔

اگر شریعت یہ کہتی ہے کہ بعض صورتوں میں مرد عورت کی اتنی پٹائی کر سکتا ہے جس سے اُس کی ہڈی نہ ٹوٹے اور خون نہ بہے تو پھر مرد کو بھی چاہئے کہ اس حد سے آگے نہ جائے۔ اگر کتابِ مقدس میں مرد کے لیے چار شادیوں کی اجازت ہے تو پھر انصاف کی شرط پوری کرتے ہوئے اُسے اپنا یہ حق استعمال کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے، ایسی قانون سازی خلافِ اسلام ہے جس میں اُس پر دوسری یا تیسری شادی کے لیے یہ قدغن لگائی جاتی ہے کہ وہ پہلی، دوسری اور تیسری سے اجازت طلب کرتا پھرے۔ 

اس طرح کم عمری کی شادی پر جب شریعت بندش نہیں لگاتی تو پھر ہماری یہ مادر پدر آزاد عورتیں کیوں 18سال تک بندش کے مطالبات کرتی ہیں۔ رہ گیا اجتہاد کا معاملہ تو ہمارے اس راسخ العقیدہ روایتی طبقے کی نظروں میں نصوص کے مقابل اجتہاد سرے سے ہو ہی نہیں سکتا یعنی جو معاملہ قرآن و حدیث کے واضح حکم میں طے کر دیا گیا ہے اسے متنازع بنایا جا سکتا ہے نہ اس کے بالمقابل اجتہاد ہو سکتا ہے۔ 

اجتہاد کا دائرہ کار مابعد پیدا ہونے والے نئے مسائل تک محدود ہے۔ اس کے ساتھ ہی روایتی فکر کا اس امر پر بھی اصرار ہے کہ ایسے تمام احکامات بےپناہ حکمتوں پر مبنی ہیں، انسانی عقل ان کا ادراک کرنے سے قاصر ہے بالخصوص وحیٔ الٰہی کے بالمقابل عقل ناقص ہے، انسانی عقل کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہے جہاں سے یہ احکاماتِ برحق آئے ہیں۔ان روایت پرستوں کے ساتھ کچھ ایسے روایتی الذہن خواتین و حضرات بھی ہیں جو اتنے سکہ بند روایتی تو نہیں لیکن معاشرتی و سماجی حوالوں سے سوچ ایسی ہی رکھتے ہیں۔ 

درویش نے اس سوچ کے حاملین کا جو جائزہ لیا ہے اس میں ملکیت کا عنصر غالب رہا ہے۔ قدیمی کلچر یا تمدن میں ہر طاقتور کمزور کو ملکیت سمجھتا تھا، صدیوں کا طویل ترین سفر طے کرنے کے باوجود اس جبری اپروچ کے کئی گوشے دنیا میں آج بھی موجود ہیں۔ بدقسمتی سے روایت پرست خطوں کی عورت آج اکیسویں صدی میں بھی اس کا شکار ہے۔ ہمارے قومی شاعر بیسویں صدی میں یہ اصرار کرتے پائے جاتے ہیں کہ ’’ناموسِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد‘‘۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔