14 مارچ ، 2020
پاکستان کے بڑے قومی اثاثوں میں سے ایک، قوم کا وہ جمہوری جذبہ اور سیاسی شعور ہے جس پر ہمارے بزرگوں نے ’’پارٹیشن آف انڈیا‘‘ جیسی اَن ہونی کو ہونی بنا کر پاکستان قائم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب کبھی میڈیا کی آزادی پر آنچ آئی، مارشل لائی، منتخب، نیم منتخب یا سول فسطائی حکومتوں نے قومی صحافت کا گلا دبانے کے لئے ہاتھ اٹھائے، آئینِ نو میں اس کی فوری نشاندہی ہوئی۔
قوم خصوصاً نوجوان نسل پر آشکار اور حکومتِ وقت پر واضح کیا گیا کہ قیامِ پاکستان کے چار بڑے محرکات تھے جن سے تقسیمِ ہند کی فتح مبین ہوئی۔ ایک فرنگی راج میں جداگانہ انتخاب کے مطالبے کی عملی شکل میں پیش کیا، دو قومی نظریہ، مسلمانانِ ہند کے لئے پیدا ہوئے نئے سیاسی چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے مسلم لیگ کی شکل میں ان کے سیاسی پلیٹ فارم کی تشکیل، اِن باکمال نتیجہ خیز اقدامات کو مطلوب ابلاغی معاونت کی فراہمی (کمیونی کیشن سپورٹ) کے لئے برصغیر کے مسلم ذرائع ابلاغ کا تاریخ ساز کردار اور حضرت قائداعظم کی راست باز اور حکیمانہ قیادت۔ مسلمانان ہند کے انہی چار دستیاب ملی اثاثوں کے منظم و متحرک ہونے سے قیامِ پاکستان کی اَن ہونی، ہونی کا نوشتۂ دیوار بنا اور پاکستان بن گیا۔ بن گیا تو فقط 13ماہ بعد ہی نومولود قوم یتیم ہو گئی، بانی ٔ پاکستان انتقال کر گئے۔
بانیٔ پاکستان کی وفات سے جو خلا نئی مملکت میں پیدا ہوا، وہ بطور ملک و قوم بنتے ہی اور سنبھلنے سے پہلے ہماری تاریخ کا سب سے بڑا نقصان تھا کہ پھر مسلم لیگ، مسلم لیگ نہ رہی، کبھی وہ ری پبلکن پارٹی بنتی، کبھی جگتو فرنٹ یوں اس کی سازشی دھڑ در دھڑ تقسیم ہوتی رہی اور ملک بنتے ہی سیاسی عدم استحکام میں مبتلا ہو گیا۔
بیورو کریسی اور خود غرض و حریص سیاستدانوں کی چاندی ہو گئی، انہوں نے اپنی گٹھ جوڑ کی بالادستی کے لئے ایسا آئینی بحران پیدا کیا کہ ملک پر مارشل لا مسلط ہو گیا، جمہوریت ڈی ریل ہو گئی، فوجی حکومت اپنے تئیں کامیاب ہو کر بھی ملک کے ٹوٹنے کی حد تک خطرناک ثابت ہوئی، حتیٰ کہ جنرل یحییٰ اور منتخب اپوزیشن کے گٹھ جوڑ سے ملک ٹوٹ گیا۔
آئین (1956)بنا بھی اور بن کر ٹوٹ گیا، دو مارشل لائوں کے فالو اپ میں انتخاب اور اس کے آئینی بحران کے حامل نتائج سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر الگ وطن بن گیا۔ باقی ماندہ پاکستان سے تلخ ترین سبق نے آئین (1973)تو بنوا دیا لیکن اس کے بمطابق و مطلوب نفاذ میں آزادیٔ صحافت پر بدترین قدغنوں سمیت اور کتنے ہی غیرجمہوری حربوں سے پاکستانیوں کے جمہوری جذبے کو کچلنے اور اسے ’’بند معاشرہ‘‘ بنانے کے لئے جو رکاوٹیں ڈالی گئیں، وہ زور بازو پر حاصل محدود یا جزوی آزادیٔ صحافت کے باعث کامیاب نہ ہو پائیں، گویا قیامِ پاکستان کے چار میں سے بچے ایک قومی اثاثے (جرأت مندانہ، بیباک اور جمہوری جذبے کی حامل صحافت) کے باعث پاکستان بار بار مارشل لائوں کے نفاذ، آئین کے بجائے سیاسی حکمرانوں کی اپنی بالادستی قائم کرنے میں کامیابی، آئین سے بالا قوتوں سے بالا اور نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کے قابلِ مذمت کردار نے بھی جمہوریت کو بیمار تو رکھا اس کا جنازہ نہیں نکالنے دیا گیا، وجہ فقط صحافیوں کی خود حاصل کردہ محدود آزادیٔ صحافت رہی۔
بلاشبہ اسے مسلسل ڈسٹرب رکھنے، حکومتوں کے دبائو میں لانے اور محدود شکل میں ہی اسے قبول کرنے کے باوجود قوم، اس غیر نیم جمہوری کلچر کی کوکھ سے پیدا ہونے والی آمریت یا نیم آمریت کو کبھی قبول نہ کر پائی۔ نہ آج کرنے کو تیار ہے۔
واضح رہے کہ آج جبکہ پاکستان میں غیرآئینی حربوں سے قائم نظامِ بد (اسٹیٹس کو) کو اپنے دعوئوں اور نعروں کے مطابق توڑنا موجودہ تبدیلی سرکار کے بس میں نہیں رہا تو وہ اپنی اصلاح کرنے پر تو آمادہ نہیں اسٹیٹس کو کی ماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کی راہ لے چکی ہے۔ صحافت کی جائز آزادی جو ملک میں بلند درجے تک آ گئی تھی، کو برداشت کرنا عمران حکومت کے لئے بھی ممکن نہیں ہو رہا۔
یہ آزادیٔ صحافت کے منافی مختلف حربوں، دباؤ اور نئے پریشر ٹولز کے ساتھ جس طرح پاکستان کی فروغ پاتی میڈیا انڈسٹری کو مرضی سے چلانے کی راہ اختیار کر چکی ہے، اس نے ثابت کر دیا ہے کہ تحریک انصاف حکمران بن کر خود بھی اسٹیٹس کو کے دائرے میں آ گئی ہے اور نمک کی کان میں جذب ہو رہی ہے۔
اسے نہیں معلوم کہ مڈل کلاس صحافیوں پر کیا گزر رہی ہے اور قوم کا بڑا اثاثہ فروغ پاتا آزاد میڈیا پاکستان کے اقتصادی و سیاسی استحکام، خود اس کے اپنے سیاسی بھی حتیٰ کہ ملکی سلامتی کے تقاضے پورے کرنے کی کتنی بڑی ضرورت ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ پراکسی وار، ففتھ جنریشن وار، ہائی بریڈ وار کے شروع ہوئے دور میں جبکہ قومی ابلاغی دھارے، جس میں سب سے بڑا حصہ آزاد صحافت کا ہے، کو ان جدید جنگوں کے تیار کرنے کے بجائے، اس کے موجود سامان کو ختم کرنے کا اہتمام کیا جا رہا ہے جبکہ ہر تین طرز کی جنگوں کے سرگرمی سے استعمال ہونے والے ہتھیار اصل میں ابلاغی ہتھیار ہیں، جس میں مین اسٹریم میڈیا کو کچلنا اور دبانا تو ایک طرف، اسے نظر انداز کرنا بھی قومی جرم کی حد تک حکومتی رویہ ہو گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔