Time 16 مارچ ، 2020
بلاگ

فرضی مقدمات ہیں، جھوٹی شہادتیں

فوٹو: فائل

12مارچ جمعرات کا دن تھا، صبح ہی صبح ایک بہت باخبر دوست نے واٹس ایپ پر بتایا کہ آج لاہور میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ 

میں نے اپنے دوست کو بتایا کہ شکیل صاحب کو ایک 34 سال پرانے معاملے میں کسی شکایت کی تصدیق کیلئے بلایا گیا ہے، ابھی تک اس شکایت کی انکوائری شروع نہیں ہوئی تو اُنہیں گرفتار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ 

دوست نے کہا کہ تمہیں پتا ہے بعض طاقتور لوگ شکیل صاحب سے بہت ناراض ہیں، قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ تو شدید غصے میں ہیں اور نیب والے تو ویسے بھی کسی آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلتے لہٰذا آج شکیل صاحب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ 

میں نے پوچھا کہ کیا شکیل صاحب کو ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر نیب کے دفتر جانا چاہئے؟ اُس نے جواباً کہا کہ شکیل صاحب کو یہ مشورہ دیا جا چکا ہے کہ ضمانت قبل از گرفتاری کے بغیر نیب والوں کے پاس نہ جائیں لیکن انہوں نے اس مشورے پر توجہ نہیں دی۔ 

میں نے کہا، ہو سکتا ہے وہ یہ سمجھتے ہوں کہ کچھ دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی ملزم نیب کے ساتھ تعاون کر رہا ہے تو اُسے گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے وہ مطمئن ہیں اور ضمانت قبل از گرفتاری کے بغیر جا رہے ہیں۔ 

دوست کا خیال تھا کہ شکیل صاحب گرفتاری کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں، اس سے پہلے اُنہیں 5 مارچ کو بھی نیب لاہور نے بلایا تھا اور اُنہوں نے نیب کے ہر سوال کا سامنا کیا۔ 

مجھے اندازہ تھا کہ اصل معاملہ 34سال قبل جوہر ٹاؤن لاہور میں ایک پرائیویٹ پارٹی سے پلاٹوں کی خریداری نہیں بلکہ شاہ زیب خانزادہ شو میں چیئرمین نیب کے متعلق اٹھائے جانے والے سوالات ہیں جس پر 29فروری کو پیمرا کی طرف سے جیو نیوز کے سی ای او کو ایک شوکاز نوٹس بھی جاری ہوا تھا۔ 

کچھ دیر کے بعد کیپٹل ٹاک کے پروڈیوسر تفسیر حسین سے بات ہوئی تو میں نے گزارش کی کہ آج ہمیں کورونا وائرس پر توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے، ہمیں پاکستان میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کسی نمائندے کو اپنے شو میں بلا کر پوچھنا چاہئے کہ وہ کورونا وائرس کے مقابلے کیلئے حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ اس کے بعد ہم نے کورونا وائرس پر ٹی وی پروگرام کیلئے تیاری شروع کر دی لیکن دوپہر کو خبر آئی کہ میر شکیل الرحمٰن لاہور میں گرفتار کر لیے گئے ہیں، ہم تو کورونا وائرس سے لڑنے کی تیاریوں میں تھے لیکن طاقتوروں نے جنگ گروپ اور جیو سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سربراہ کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا، اس گرفتاری نے عالمی سطح پر پاکستان کو توجہ کا مرکز بنا دیا، انسانی حقوق اور صحافیوں کی عالمی تنظیموں نے اس گرفتاری کی مذمت شروع کر دی۔ 

اگلے دن جمعہ تھا، صدرِ مملکت عارف علوی کے ساتھ پہلے سے ایک ملاقات تھی، اس ملاقات میں کورونا وائرس کیساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی بھی زیر بحث آئی، ملاقات کے بعد میں دفتر پہنچا تو وزیراعظم کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان کی ایک دھمکی آمیز پریس کانفرنس نشر ہو رہی تھی۔ 

موصوفہ فرما رہی تھیں کہ میر شکیل الرحمٰن کو ان کے ایک ذاتی معاملے میں گرفتار کیا گیا ہے لیکن ایک سیٹھ کی گرفتاری کو آزادیٔ صحافت کا مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ یہ سیٹھ کی اصطلاح جنرل پرویز مشرف کے دور میں سامنے لائی گئی تھی جب وکلا تحریک میں میڈیا نے ایک بھرپور کردار ادا کیا تو مشرف حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے ٹی وی چینلز اور اخبارات کے مالکان کو سیٹھ صاحبان قرار دے کر کہا کہ اسٹیٹ کا مقابلہ سیٹھ سے ہے اور یہ سیٹھ ایک مافیا بن چکے ہیں۔ 

فردوس عاشق اعوان صاحبہ یہ انکار نہیں کر سکتیں کہ وہ دراصل مشرف دور کی سیاسی پیداوار ہیں لہٰذا اُن کی زبان سے مشرف دور کی سیاسی اصطلاحات سُن کر کچھ عجیب نہیں لگتا۔ 

ابھی اُن کی پریس کانفرنس کو ختم ہوئے 15 منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ کیبل آپریٹرز کو پیمرا کی طرف سے کالیں کی جانے لگیں کہ جیو نیوز کو بند کر دو یا آخری نمبروں پر ڈال دو، ان فون کالوں نے فردوس عاشق اعوان کے اس دعوے کی نفی کر دی کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری دراصل ایک سیٹھ کی گرفتاری ہے، اگر یہ سیٹھ کا ذاتی معاملہ تھا تو پھر جیو نیوز کو بند کروانے کے لئے حکم کیوں جاری ہوا؟

تادمِ تحریر اسلام آباد میں جیو نیوز اُن نمبروں پر نظر نہیں آ رہا جن پر جمعہ کی دوپہر تک نظر آ رہا تھا اور اس ’’نمبر گیم‘‘ نے نیب اور فردوس عاشق اعوان کی گیم کو بےنقاب کر دیا ہے۔ 

میر شکیل الرحمٰن کو سیٹھ قرار دے کر آپ کارکن صحافیوں کو اُن کے حق میں آواز اٹھانے سے نہیں روک سکتے، ایک میڈیا گروپ کے مالک کی حیثیت سے وہ نہ سب کو خوش رکھ سکتے ہیں نہ سب کو ناراض کر سکتے ہیں۔ 

میں تین دہائیوں سے اُن کے ساتھ کام کر رہا ہوں، کئی دفعہ اُن کے ساتھ اختلاف کیا اور اپنی مرضی بلکہ بعض اوقات من مانی بھی کی لیکن انہوں نے ایک دانا بزرگ کی طرح ضدی اور غصیلے بچے کی گستاخی برداشت کی۔ 

2018ء میں مختلف اخباری اداروں اور ٹی وی چینلز میں تنخواہوں کی ادائیگی میں کئی کئی ماہ کی تاخیر شروع ہوئی تو معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا، ایک دن چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی عدالت میں بلا کر مجھے پوچھا کہ کیا آپ کو تنخواہ تاخیر سے ملتی ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا اور عدالت نے میر شکیل الرحمٰن کو طلب کر لیا۔ 

پھر عدالت نے میری سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی اور اس کمیٹی میں شکیل صاحب کے ساتھ بہت سخت باتیں بھی ہوئیں، انہوں نے کچھ وعدے کیے جو پورے نہ ہوئے تو میں نے ادارہ چھوڑ دیا، لیکن وہ مجھے واپس لے آئے، میں واپس کیوں آیا؟ مجھے پتا تھا کہ تنخواہ کی ادائیگی میں دیر سویر ہو سکتی ہے لیکن شکیل صاحب آزادیٔ صحافت پر وہ سودا نہیں کریں گے جو باقی سیٹھ کر لیتے ہیں۔ 

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کافی عرصے سے غیر علانیہ سینسر شپ کی زد میں ہے اور بعض اوقات ہمیں ادارے کی بقا کیلئے چھوٹے چھوٹے سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں لیکن 12مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اس لیے ہوئی کہ اُنہوں نے چیئرمین نیب کے ساتھ سمجھوتا کرنے سے انکار کیا۔ 

9مارچ کو میں نے کیپٹل ٹاک میں شاہد خاقان عباسی سے پوچھا کہ کیا آپ کو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کرنے کے الزام میں سزا نہیں ملنی چاہئے؟ اگلے ہی دن 10مارچ کو میر شکیل الرحمٰن کو نوٹس دے کر 12مارچ کو بلا لیا گیا۔ 

میر شکیل الرحمٰن کو جوہر ٹاؤن لاہور میں 34 سال قبل پلاٹ خریدنے کے الزام میں گرفتار نہیں کیا گیا اُنہیں میری، شاہزیب خانزادہ اور جنگ و دی نیوز کے کچھ دیگر ساتھیوں کی گستاخیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ 

گرفتار کرنے والوں کا خیال تھا کہ کارکن صحافیوں کو تنخواہیں تاخیر سے مل رہی ہیں اور دنیا میں کورونا وائرس کا خوف چھایا ہوا ہے لہٰذا میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری پر کوئی آواز نہیں اُٹھے گی لیکن 14مارچ کو پاکستان بھر میں کارکن صحافیوں نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا اور 16مارچ سے یہ احتجاج تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے جس میں ہم گرفتاریاں دینے کیلئے بھی تیار ہیں اور سب سے پہلے میں گرفتاری دوں گا، اب یہ جنگ میر شکیل الرحمٰن کیلئے نہیں ہے، یہ آزادیٔ صحافت کی جنگ ہے جس میں کارکن صحافی ہمیشہ آگے آگے رہے ہیں؎

فرضی مقدمات ہیں، جھوٹی شہادتیں
ہم پھر بھی لکھ رہے ہیں جنوں کی حکایتیں


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔