بلاگ

میر شکیل الرحمٰن گرفتار نہ ہوتے اگر۔۔۔

فوٹو: فائل

قومی احتساب بیورو کو جب کسی شخص کے خلاف کوئی شکایت آتی ہے تو سب سے پہلے اس میں لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا ان الزامات میں دم ہے یا نہیں۔ 

اس مرحلے کو ویری فکیشن کا نام دیا گیا ہے اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی عدالت میں درخواست جمع کروائے جانے پر جج صاحبان پہلے اس نکتے پر غور کرتے ہیں کہ آیا یہ پٹیشن قابلِ سماعت ہے یا نہیں۔ 

اگر پہلے مرحلے میں حقائق کی تصدیق ہو جائے تو پھر چیئرمین نیب کی سربراہی میں نیب بورڈ اس شخص کے خلاف انکوائری کی منظوری دیتا ہے، انکوائری کے مرحلے پر نامزد شخص سے سوالات پوچھے جاتے ہیں، کیس سے جڑے تمام افراد سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے، اگر بیان کردہ حقائق درست ثابت ہوں تو پھر انویسٹی گیشن کی منظوری دیدی جاتی ہے۔ 

تفتیش کے دوران شواہد جمع کئے جاتے ہیں، گواہوں کے بیانات حاصل کئے جاتے ہیں اور اگر معقول حد تک ثبوت موجود ہوں تو پھر احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر دیا جاتا ہے۔ 

نیب حکام کو کسی موقع پر یہ محسوس ہو کہ ملزم تعاون نہیں کر رہا ہے، اس کے ملک سے فرار ہونے کا امکان موجود ہے یا پھر وہ کسی عوامی عہدے پر ہونے کی وجہ سے شواہد مٹاکر کیس کو خراب کر سکتا ہے تو اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس قسم کے خدشات موجود نہ ہوں تو ملزم کو تحویل میں لینا ضروری نہیں۔ 

مثال کے طور پر بابر اعوان کے خلاف نندی پور پاور پروجیکٹ میں بدعنوانی اور بدانتظانی کا الزام لگا تو محولہ بالا سارے مراحل طے ہونے پر ستمبر 2018میں ان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس داخل کر دیا گیا لیکن کسی بھی مرحلے پر انہیں گرفتار نہیں کیا گیا یہاں تک کہ ریفرنس داخل ہونے کے بعد بھی وہ مکمل آزادی سے گھومتے رہے۔ 

خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور صوبائی وزیر مشتاق غنی کے خلاف کئی شکایات ویری فکیشن کے مرحلے سے نکل کر انکوائری کی اسٹیج پر آچکی ہیں لیکن ان دونوں کو بھی گرفتار نہیں کیا۔ 

وفاقی وزیر خسرو بختیار کے خلاف کرپشن اور آمدن سے بڑھ کر اثاثہ جات بنانے کا کیس بہت مضبوط ہے، میں پہلے ایک کالم میں تفصیل بیان کر چکا ہوں کہ کس طرح مدعی احسن عابد ایڈوکیٹ نے 2018میں نیب سے رجوع کیا اور بھرپور پیروی کرتے ہوئے ہائیکورٹ سے رجوع کیا تو تب کہیں جا کر نیب نے انکوائری کی منظوری دی۔ 

عدالتی دباؤ پر انکوائری کی منظوری تو دیدی گئی لیکن تاحال وفاقی وزیر کو گرفتار کرنا تو درکنار انہیں طلب کرکے سوالات کرنے کی جسارت بھی نہیں کی گئی بلکہ کیس کو خراب کرنے کی غرض سے پُراسرار انداز میں اس کی تفتیش ملتان سے لاہور منتقل کر دی گئی۔ 

ہاں البتہ جب کسی شخص کا بازو مروڑ کر اسے جھکانا یا نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے تو اسے کسی بھی مرحلے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے، نیب کے اس امتیازی سلوک کا تازہ ترین نشانہ جنگ گروپ کے مدیر اعلیٰ میر شکیل الرحمٰن بنے ہیں جنہیں جمعرات کو ملاقات کے لئے بلا کر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 

گرفتاری پر جب نیب حکام سے رابطہ کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف کس کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے تو انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ شکایت کنندہ کون ہے۔ 

میر شکیل الرحمٰن کو 34سال پہلے چند پلاٹ خریدنے کے الزام میں نوٹس دیا گیا تو وہ ملک سے باہر تھے، نوٹس ملنے پر میر شکیل الرحمٰن وطن واپس آکر نہ صرف نیب حکام کے سامنے پیش ہوئے اور ان کی طرف سے پوچھے گئے تمام سوالات کے جوابات دیے بلکہ اس پیشی کی خبر ’’جنگ‘‘ اور ’’جیو ‘‘ پر شائع اور نشر کرکے اعلیٰ صحافتی اقدار کی ایک عمدہ مثال قائم کی گئی۔ 

میر شکیل الرحمٰن کو دوسری بار 12مارچ کو نیب لاہور کے ہیڈ کوارٹر آنے کو کہا گیا تو وہ ایک بار پھر پیش ہو گئے مگر اس بار انہیں ملاقات کے بہانے بلا کر گرفتار کر لیا گیا، ابھی چند روز پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ایک بنچ نے امجد مصطفیٰ ملک برخلاف ڈی جی نیب کیس میں قرار دیا ہے کہ ملزم تفتیش میں تعاون کرے تو نیب کو اسے گرفتار کرنے کا اختیار نہیں اور ایسی صورت میں نیب تفتیشی افسر کی اہلیت پر سوالات اُٹھتے ہیں مگر یہاں تو ابھی انکوائری یا انویسٹی گیشن کا آغاز ہی نہیں ہوا تو تعاون کے باوجود ویری فکیشن کے مرحلے پر گرفتاری کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ 

میر شکیل الرحمٰن عوامی عہدیدار بھی نہیں کہ اپنے منصب اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے شواہد مٹا سکیں اور اگر انہوں نے راہ فرار اختیار کرنا ہوتی تو بیرون ملک سے پاکستان واپس آکر نیب حکام کے سامنے پیش کیوں ہوتے؟

میر شکیل الرحمٰن کا حقیقی جرم یہ ہے کہ اس نے صحافتی آزادی کو معاشی مفادات کے عوض گروی رکھنے سے انکار کردیا، جب میڈیا کو شدید دباؤ کا سامنا تھا اور کئی صحافتی اداروں کی ہمت جواب دے گئی تو میر شکیل الرحمٰن نے جبرناروا کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا۔ 

جنگ گروپ کو معاشی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا مگر ان نامساعد حالات میں بھی بعض مواقع پر وقتی پسپائی اختیار کرنے کے باوجود اظہار کے نئے راستے تلاش کرتے ہوئے اپنے قارئین اور ناظرین کو باخبر رکھنے کے فرض سے پہلو تہی نہیں کی گئی۔ 

نیب کی طرف سے ادارے کو کس قدر شدید دباؤ کو سامنا رہا، اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ جب میں نے نیب کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے ملاقات کے بعد 5مارچ 2019کو ’’نیب کی کہانی‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تو بھونچال آگیا۔ 

نیب کی طرف سے ایک بےنام تحریر بھیجی گئی جو ادارتی صفحات پر شائع ہوئی اور ساتھ ہی مجھ سے نیب حکام کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ اس تحریر کا جواب نہ دیا جائے۔ اب بھی اگر نیب کے چند مطالبات مان لئے جاتے تو کبھی یہ نوبت نہ آتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔