15 مارچ ، 2020
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
آج اتوار ہے، بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں سے مل بیٹھنے، ان سے ڈھیروں باتیں کرنے کا دن۔ ایک طرف کورونا کی وبا ملکوں ملکوں پھیل رہی ہے۔ اکیسویں صدی میں جدید ترین سائنسی آلات، علاج معالجے کے انتہائی معیاری طور طریقوں کے باوجود کورونا دور دراز سرحدیں پار کر رہا ہے۔ زندہ قومیں اپنے سائنسدانوں کو تحقیق پر مامور کررہی ہیں لیکن پاکستان میں حکمران اپنے سیاسی انتقام کی آگ بھڑکانے میں مصروف ہیں۔
آج ہمیں اپنی آنے والی نسلوں سے میڈیا کی آزادی اور ذمہ داریوں پر باتیں کرنا ہوں گی۔ ہمارے بچے تو آج بھی یہ سوال کررہے تھے کہ جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ وہ نہ تو حکمراں ہیں، نہ ہی سرکاری ملازم اور نجی طور پر املاک خریدنا یا بیچنا تو کوئی جرم نہیں ہے۔
ہماری پوتی کہہ رہی ہے کہ شکایت کچھ اور ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں تو کچھ خبریں اور تجزیے گزرتے ہیں لیکن دفعات اور تعزیرات کوئی اور لگا دی جاتی ہیں۔
انگریز کا دَور یاد آ جاتا ہے جب جنگ کے بانی میر خلیل الرحمٰن نے کچھ وقت دہلی کے حوالات میں گزارا۔ جرم یہی تھا، حق گوئی۔ اب جنگ کی دوسری نسل اسی جرم کے ارتکاب میں پسِ دیوارِ زنداں ہے۔
غیرملکی سامراج کی برہمی تو سمجھ میں آتی ہے کہ استعماری طاقتوں کو مقامی قوتوں کی جرأت کبھی بھی برداشت نہیں ہوئی۔ پھر ان کے وارث آمروں کے دَور میں بھی ایسی آوازیں دبائی جاتی رہیں۔ جنرل ایوب خان کے دس سالہ عہد میں کتنے اخبارات و رسائل بند ہوئے۔
ایڈیٹرز اور صحافی پابندِ سلاسل رہے۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تو سفاکی اور قہر سے عبارت تھا۔ آزادیٔ صحافت کی جدوجہد میں اخبارات کی بندش کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے منہاج برنا، نثار عثمانی، حسین نقی اور نہ جانے کتنے اہلِ قلم، ایڈیٹر ملک کی مختلف جیلوں میں قید کاٹتے رہے۔ دو اڑھائی مہینے مجھے بھی جیل خانے کا شرف حاصل ہوا۔ مارشل لا دور میں صحافیوں پر جبر قابلِ فہم ہے۔
مارشل لا خود قانون اور آئین سے ماورا ہوتا ہے۔ ایسی ظالمانہ کارروائیاں متوقع ہوتی ہیں۔
مگر ایک منتخب جمہوری سیاسی حکومت کے دَور میں جب آئین کی حکمرانی ہو، قانون کی گورننس کے دعوے ہوں، قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیاں کام کررہی ہوں، حکمران اپنے اقتدار کو اپنی 22 سالہ سیاسی جمہوری جدوجہد کا نتیجہ قرار دے رہے ہوں، ان دنوں میں پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف کو ایک ایسے مقدمے میں صرف تفتیش کے مرحلے میں گرفتار کر لینا اس حکومت کی بےبسی اور بےصبری کا مظہر ہی کہا جا سکتا ہے۔
نیب کی جنگ گروپ کو دھمکیاں بھی پس منظر میں موجود ہیں۔ نیب کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹیں، حکومتی اقدامات پر جنگ گروپ کی پالیسیاں، ایک آزاد میڈیا ادارے کے پیشہ ورانہ رویوں کا اظہار تھا۔ نیب یا حکومتی ادارے اپنا موقف دیتے رہے ہیں، وہ بھی شائع ہوتا رہا ہے۔ نیب کی دست اندازی کا جواز نہیں بنتا تھا۔
اس کے باوجود جب میر شکیل الرحمٰن نیب کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے آرہے تھے تو گرفتاری محض ایک ذاتی انتقام کی پیاس بجھانے کی کارروائی ہے۔
جنگ گروپ نے اس جبر کے خلاف قانونی اور صحافتی جنگ لڑنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ میر شکیل الرحمٰن ایسی جنگیں پہلے بھی لڑ چکے ہیں۔ میاں نواز شریف بھی 1998میں ایسی ہی آگ بھڑکانے میں مصروف تھے جسے اب عمران خان ہوا دے رہے ہیں۔ حبیب جالب یاد آتے ہیں:
تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اسکو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا پر مجموعی طور پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ اس کا سبب ملک کے خراب معاشی حالات بھی ہیں۔ جو پہلی حکومتوں، مشرف، زرداری اور میاں صاحب کی غلط پالیسیوں کا خمار ہیں پھر میڈیا مالکان اور ان کی انتظامیہ کی بعض مالی اور انتظامی پالیسیاں، جن کے نتیجے میں کئی ہزار میڈیا کارکنوں کے گھروں کے چولہے سرد ہو چکے ہیں اور مزید برطرفیوں کے امکانات موجود ہیں۔
ٹریڈ یونین کمزور ہو چکی ہے۔ لیبر کورٹس بھی بےاثر ہیں، کارکنوں میں اتحاد نہیں ہے۔ میڈیا کی دنیا پہلے ہی افراتفری اور باہمی اختلافات کا شکار ہے۔ اس لیے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ حکومتی جبر و استبداد اگر اسی طرح جاری رہا۔ ایک طرف آواز حق دبائی جا رہی ہے، اشتہارات بند کیے جا رہے ہیں، میڈیا کی تنخواہوں میں بڑا تفاوت ہے۔ دوسری طرف میڈیا ورکرز بےروزگار کیے جارہے ہیں۔
ایسے عالم میں کسی بھی شعبے یا پیشے کی صفوں میں جس اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے کیا وہ قائم ہو سکے گا۔ جس قسم کے مالی حالات ہیں اور حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیاں ہیں۔ ان کے نتیجے میں حکمران بھی گھبراہٹ کا شکار ہیں اور وہ کسی میڈیا گروپ کی راست گوئی کو برداشت نہیں کریں گے۔
چراغ سب کے بجھیں گے۔ ہوا کسی کی نہیں ہے۔ بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں طالبان اور امریکہ نواز حکمرانوں کی جنگ کے اثرات بھی پاکستان پہنچیں گے۔ چین کورونا کی وجہ سے اپنی معاشی ترقی کی رفتار کھو چکا ہے۔ اس ساری شکست و ریخت سے پاکستان کو گزرنا ہے۔ سب طوفانوں کا پہلا وار میڈیا پر ہوگا۔
اس لیے میڈیا مالکان، میڈیا ورکرز کا باہمی اتحاد ضروری ہے۔ میڈیا مالکان کو بھی پیشہ ورانہ انتظامی پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی اور حکومت کو بھی اپنے اندر صبر و تحمل پیدا کرنا ہوگا۔ بڑے بڑے سول اور فوجی آمر آئے چلے گئے۔ انہیں کوئی یاد بھی نہیں کرتا۔ لیکن جنگ گروپ اور دوسرے میڈیا گروپ اپنی اپنی جگہ قائم ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔