16 مارچ ، 2020
کورونا کو اس بات کا کریڈٹ نہ دینا کم ظرفی ہوگی کہ اس معمولی سے وائرس نے بین الاقوامی سطح پر محمود و ایاز یعنی ہر قسم کی اعلیٰ و ادنیٰ، طاقتور و کمزور، خوشحال اور بھوکی ننگی، بڑی اور چھوٹی، شریف اور بدمعاش قوموں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے ایک ہی رنگ میں رنگ دیا ہے۔ کیا گورا کیا کالا، کیا بھورا، کیا پیلا سب سہمے ہوئے، آنکھ کالی ہو یا بھوری، شربتی ہو یا سبز اور نیلی سب میں خوف کے سائے۔
دشمن دکھائی دے رہا ہے نہ سنائی دے رہا ہے، نہ اس کے ہاتھوں میں ڈالروں، درہموں، دیناروں، ریالوں اور پائونڈوں کے انبار نہ ہائیڈروجن بموں جیسے ہتھیار لیکن اشرف المخلوقات میں بھگدڑ مچی ہے جبکہ ہواؤں میں تیرتے پرندوں، جنگلوں میں دھاڑتے درندوں سے لیکر پانیوں میں اٹھلاتی مخلوق تک کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، بڑے بڑے، بڑی بڑی قربانیاں دے کر جو کام نہ کر سکے، کورونا ڈارلنگ نے کر دکھایا۔
مجال ہے جو انسان کبھی کسی ایک بات پر متفق ہوا ہو لیکن کورونا کا کرشمہ دیکھیے کہ اس پر دل و جان سے سبھی متفق ہیں، میں نہیں جانتا کہ کورونا میل ہے، فی میل ہے یا شی میل یعنی مذکر ہے، مونث ہے یا خواجہ سرا لیکن ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو پوری کائنات بلکہ ساری کائناتیں جو اپنے خالق و مالک کی نشانیاں ہیں اور نشانیوں سے بھری پڑی ہیں۔
انسانوں کو چند بنیادی باتوں پر بھی قائل نہ کر سکیں لیکن صدقے جاواں مسٹر یا میڈم کورونا کے کہ اس نے ٹیڑھوں میڑھوں کو تیروں کی طرح سیدھا کر دیا۔
مریض ڈیڑھ لاکھ سے اوپر پہنچ گئے، اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹرز خالی اور میں اس صورتحال سے لطف اندوز ہونے میں 100 فیصد حق بجانب کہ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ تو دوسری طرف کینیڈا کے وزیراعظم کی بیگم کے ٹیسٹ جبکہ تیسری طرف مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا نریندر بلکہ ’’دریندر‘‘ مودی خون میں شرابور دھوتی لپیٹ کر ہولی کھیلنے سے انکاری تو بندہ پوچھے اے مرے بندے ماترم! کدھر گیا دھرم اور ہندوتوا؟
اتنے ہی بس جری تھے حریفانِ آفتابچمکی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئےچند ہفتوں، مہینوں میں کوئی ویکسین آ بھی جائے لیکن ایک بات طے کہ حضرت انسان کو اس کی اصل اوقات ضرور یاد آ گئی ہے۔
ہر قسم کے مسافروں سے لیکر مصافحوں تک پر پابندیاں لگ گئیں، غلیظ ترین لوگوں کو بھی صفائی یاد آ گئی، اور تو اور ہم جیسے جنہیں صدیوں پہلے سمجھایا بتایا گیا تھا کہ صفائی نصف ایمان ان کو بھی حکم یاد آ گیا اور اب صابن اور سینی ٹائزرز ڈھونڈتے پھرتے ہیں لیکن اندر کے گند کی طرف پھر دھیان نہیں کہ ماسکوں سے لیکر سینی ٹائزرز تک سب کچھ بلیک ہو رہا ہے تو حیرت کیسی کہ جو رمضان المبارک کی شان میں ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی سے باز نہیں آتے، وہ ایک حد سے آگے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
بے شک انسان خسارے میں ہے اور آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا معاف کیجئے قارئین! تمہید ہمارے قومی قرضوں اور قومی کردار سے بھی لمبی ہو گئی حالانکہ آپ کو صرف اتنا بتانا تھا کہ ’یونیسیف‘ نے کورونا ڈارلنگ کے حوالہ سے اک حقائق نامہ جاری کیا جسے ایک نظر دیکھ لینا ضروری ہوگا، 1۔ کورونا وائرس کا سائز 500 مائیکرو قطر ہوتا ہے جو ماسک میں سے نہیں گزر سکتا (ماسک مزید مہنگے کرو)
2۔ یہ وائرس ہوا میں نہیں پھیلتا اور عمر 12گھنٹے ہوتی ہے، 3۔ یہ صابن پانی سے بہ آسانی دھل جاتا ہے، 4۔ دس منٹ تک ہاتھوں میں زندہ رہتا ہے، 5۔جیب میں الکحل رکھنے سے بھی بچاؤ ممکن ہے یعنی شراب سے بھاگتا ہے، 6۔26 درجہ حرارت میں فوت ہو جاتا ہے،7۔سورج کی حرارت لیں، گرم پانی استعمال کریں، دھوپ میں زیادہ سے زیادہ بیٹھیں، 8۔ٹھنڈے پانی اور آئس کریم وغیرہ سے دور رہیں۔
قارئین! اللہ آپ کو، آپ کے اہل خانہ اور دوست احباب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے لیکن ہو سکے تو الکحل کو جیب میں رکھنے سے بچیے کیونکہ یہاں حرام کی دولت نہیں الکحل رکھنا جرم ہے۔ اسی لئے ناکوں پہ کہتے تھے منہ سنگھاؤ اب کہیں گے جیب سنگھا یہ کہنے کی جرأت کسی میں نہیں کہ سرے محل سنگھاؤ، پارک لین سنگھاؤ، ٹی ٹیاں سنگھاؤ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔