کورونا اور سندھ حکومت کے اقدامات

فوٹو فائل—

2ہفتے قبل حکومت نے اسکولوں میں چھٹیاں دیدیں تو ہم نے امریکا اور کینیڈا کا پروگرام بنایا، میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ کینیڈا آیا تاکہ سہ ماہی طبی معائنہ کروا کر امریکا کے شہر لاس اینجلس میں سب اکٹھے چھٹیاں گزاریں۔ ٹورنٹو ائیر پورٹ پر باری باری ایک مشین سے گزارا گیا۔

دوسرے دن اپنے فیملی ڈاکٹر کے کلینک میں گئے تو کاؤنٹر پر نرس نے پوچھا کہ آپ باہر کسی اور ملک سے تو نہیں آرہے۔ ہم نے بتایا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، اس نے ہمارا ہیلتھ کارڈ واپس کرکے کہا کہ آپ واپس گھر جائیں اور اپنے اپنے کمروں میں رہیں اور 14دن بعد واپس آئیں اور اگر کوئی ایمرجنسی یا کورونا کی علامات ہوں تو صرف کورونا ایمرجنسی اسپتال فون کرکے مریض کو لے جائیں۔ 

ہم گھر واپس آگئے۔ اتفاق سے دوسرے دن ہمارے 2صاحبزادے مع فیملی لاس اینجلس پہنچے، اسی دن لاس اینجلس اور کیلیفورنیا میں کورونا وائرس کے 600مریضوں کا پتا چلا اور امریکی صدر ٹرمپ نے ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا۔

امریکا نے کورونا وائرس کی وجہ سے تمام یورپین ممالک کی فلائٹس منسوخ کر دیں اور لاس اینجلس میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے باہر سے آئے ہوئے سیاح ہوٹل چھوڑ کر اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اسی طرح صرف تیسرے دن میرے صاحبزادے اور فیملی کراچی روانہ ہو گئی اور ہم کینیڈا رُک گئے۔ امریکا میں لاک ڈائون کی وجہ سے عوام کھانے پینے کی سپر مارکیٹوں اور دکانوں میں گھس گئے۔

حفاظتی سینی ٹائزر، ماسک، ٹشو اور ٹائلٹ پیپر آناً فاناً بک گئے، کچھ دکانوں میں چھینا جھپٹی بھی ہوئی، پولیس نے بھی مداخلت کی۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ اسلحہ کی دکان کے باہر بھی لائنیں لگ گئیں کہ اگر کھانے پینے کی اشیا نہ ملیں تو بہت سےگوروں کو سیاہ فام لوگو ں سے گھروں میں گھس کر لٹنے کا ڈر تھا اس لیے انہوں نے اسلحہ بھی خرید کر رکھ لیا۔

یاد رہے کہ امریکا میں اسلحہ اپنی حفاظت کیلئے خریدنے کی صورت میں کوئی لائسنس درکار نہیں ہوتا، البتہ اس کی نمائش کی اجازت نہیں ہے۔ ادھر ہم بھی کینیڈا میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے شٹ ڈائون کے اعلان کی وجہ سے گھروں میں زیادہ وقت گزارنے کی ہدایت پر عمل کرنے لگے۔ تمام اسکول، یونیورسٹیاں بند کر دی گئیں اور آن لائن سسٹم نافذ کر دیا تاکہ طالبعلم گھر بیٹھ کر آن لائن رابطہ کریں۔

جم، بارز، ریسٹورنٹ میں کھانا بیٹھ کر کھانے پر پابندی لگا دی گئی البتہ خرید کر گھر لے جانے کی اجازت دی گئی۔ مالز اور دکانیں کھلی رکھی گئیں جبکہ ایک ہفتے میں کینیڈا میں 700مریض کورونا سے متاثر تھے اور صرف 9اموات تھیں۔ عوام صرف ضرورت کی چیزیں خرید رہے تھے اور ایک پیسہ بھی قیمتیں نہیں بڑھیں۔

وزیراعظم نے فوری طور پر 5ارب ڈالر مختص کر دیے، پھر ایک ہفتے میں پورے ملک میں 40فیصد عوام بیروزگار ہو گئے تو کینیڈین حکومت نے بیروزگار ہونیوالے افراد کیلئے 900ڈالر فی ہفتہ حکومت کی طرف سے بیروزگاری الائونس کا اعلان کر دیا اور تمام کوائف آن لائن بھر کر حکومتی اداروں کو بھیجنے کی ہدایت کر دی تاکہ عوام میں بےچینی نہ پھیلے۔

اب میں اپنے ملک پاکستان کی خبریں سن سن کر اور انٹرنیٹ، وٹس اپ، فیس بک پوسٹیں پڑھ پڑھ کر پریشان ہو گیا ہوں، مرکزی حکومت لاک ڈائون نہ کرنے کی ہدایت کرتی ہے اور ہماری سندھ حکومت کی پھرتیوں پر افسوس ہو رہا ہے کہ کراچی کو راتوں رات لاک ڈائون کر ڈالا۔ حتیٰ کہ چھوٹی چھوٹی دکانیں تک بند کروا دیں ۔ جبکہ ادویات کے چھڑکائو پر کوئی توجہ نہیں، سڑکوں اور محلوں میں کچرا تک اُسی طرح پڑا ہے۔

گلیوں میں گٹر اُبل رہے ہیں کوئی حفاظتی اقدام کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹانے کیلئے لوگوں کو گھروں میں قید کیا جا رہا ہے۔ چند سو افراد کے ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے سے کورونا پھیلنے کا خطرہ اور فیکٹریوں میں ہزاروں ورکرز کی صحت کا کوئی خیال نہیں۔ کھربوں روپے ٹیکس وصول کرکے 3ارب روپے 3کروڑ کی آبادی کیلئے مختص کرکے کراچی والوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

دہرامعیار ملاحظہ ہو، چین سے تو نوجوان طلبہ کو نہیں لایا گیا مگر ایران اور سعودی عرب سے زائرین کو بھر بھر کر لایا جا رہا ہے۔ روز مرہ کی مزدوری کرنے والے غریب عوام کہاں سے کھائیں گے۔ دنیا چین جانے سے ڈر رہی ہے اور ہمارے صدر محترم اور وزیر خارجہ وہاں جاکر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ﷲ کے نبیﷺ نےآفت زدہ علاقے میں جانے سےمنع فرمایا تھا۔

یہ معزز افراد وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ ان کے ملک میں تو ماسک بھی پاکستان سے حکومتی وزیر صحت نے بھجوائے۔ اگر سندھ حکومت غریبوں کے کم سے کم بجلی کے بل ہی معاف کر دیتی تو کیا بگڑ جاتا۔ جو حکومتی افراد بینظیر انکم سپورٹ فنڈ سے اربوں روپے کھا گئے ان کے خلاف ثبوت ملنے کے باوجود نہ اُن سے یہ رقمیں واپس لیں اور نہ ان کو سزائیں دیں۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

اب سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستان آنے کیلئے ہیلتھ سرٹیفکیٹ کی شرط رکھی ہے جو سراسر زیادتی ہے، اس کے حصول کیلئے کم از کم 15دن درکار ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس شرط کو فوری واپس لے۔

سندھ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ میر شکیل الرحمٰن کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر سندھ اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظور کرائے۔ کیونکہ میر شکیل الرحمٰن کے اخبار اور چینل کا تعلق سندھ سے ہے اور اُن کا صحافتی حلقوں میں ایک بڑا نام ہے۔

جمہوریت پر قدغن لگانا مشرف حکومت کو بھی مہنگا پڑا تھا اور اب پی ٹی آئی حکومت کو بھی مہنگا پڑ سکتا ہے۔ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کورونا وائرس صرف سندھ میں ہے، دوسرے صوبوں میں نہیں، وہاں لاک ڈاؤن کیوں نہیں ہوا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔