Time 28 مارچ ، 2020
بلاگ

گھر میں رہو، محفوظ رہو

فوٹو: فائل

اﷲ نہ کرے کہ انسانیت ’’کورونا‘‘ کی جنگ ہار جائے مگر اس سے پہلے بھی انسان کئی وائرس پر مکمل طور پر فتح مند نہیں ہو سکا۔ یہ انسان کی خوش قسمتی تھی وہ جراثیم چھوت کے مرض کے حامل نہیں تھے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انسان نے بڑے بڑے خطرناک جراثیموں کو شکست فاش دی۔ اس مرتبہ مقابلہ سخت سہی مگر ہم بھی آسانی سے ہارنے ماننے والے نہیں کہ مایوسی کفر ہے۔ اک ذرا سا مسئلہ وقت کا ہے۔

بقول عمران خان:کورونا کے خاتمے میں 6 مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔ بین الاقوامی فیڈریشن آف فارماسیوٹیکل مینو فیکچررز کی طرف سے آواز آئی:ویکسین کی تیاری میں بارہ سے اٹھارہ مہینے لگ سکتے ہیں۔ کورونا سے محفوظ رہنے کا واحد حل ’’حفاظتی حصار‘‘ ہے۔ خدا کا شکر کہ یہ حصار ہمیں دینِ اسلام نے دیا۔ صفائی کو نصف ایمان کہا۔

5 وقت وضو فرض قرار دیا مگر معاملہ صرف ہم مسلمانوں کا نہیں، پوری انسانیت کا ہے۔ خدانخواستہ انسانیت یہ جنگ نہ جیت سکی تو پھر کیا ہوگا۔ کورونا کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی۔ تہذیب و ثقافت میں کیسی تبدیلیاں آئیں گی۔ زندگی گزارنے کے طور اطوار کس حد تک بدلیں گے۔ کیا لوگ ہاتھ ملانا بھول جائیں گے-

کیا گلے ملنا معیوب سمجھا جانے لگے گا۔ کیا اساتذہ آن لائن تعلیم دیا کریں گے۔ کیا جسمانی میل جول ختم ہو جائے گا۔ تقریبات نہیں ہوا کریں گی۔ بےشمار سلگتے ہوئے سوال کورونا وائرس کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔

لگتا یہی ہے کہ فیملیز ایک دوسرے کے اور قریب ہو جائیں گی- ایک دوسرے کا خیال رکھیں گی۔ گھر میں داخل ہونے والے کی پوری جانچ پڑتال ہوگی کہ کہیں کسی کے ساتھ کوئی ناپسندیدہ وائرس تو اندر نہیں آرہا۔ مہمان داری کے طریقہ کار بھی بدل جائیں گے-

مذہبی اجتماعات محدود ہو جائیں گے- ان کے لئے باقاعدہ اسکریننگ ہوا کرے گی- ایئر پورٹس پر بھی اسکریننگ ضروری ہوگی- لوکل ٹرانسپورٹ بھی اسکریننگ کے بغیر ممکن نہیں رہے گی- اُس زندگی کا تصور بھی ہمیں خوف دلانے کے لئے کافی ہے۔ سو ہم نے یہ جنگ ہر حال میں جیتنی ہے۔ ہمیں عمران خان کا ساتھ دینا ہے۔ انہوں نے اس مشکل وقت میں مہنگائی کم کرنے کے لئے جو کچھ ممکن تھا، وہ کیا ہے۔

انہیں غریبوں کا احساس ہے۔ وہ پریشان ہیں کہ اِس تکلیف دہ دورانیے کو کیسے گزاریں گے۔ کورونا کے حوالےسے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ قابلِ داد ہیں۔ انہوں نے سندھ میں کورونا کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے روشن مثال قائم کی ہے اور پنجاب میں عثمان بزدار نے۔

دونوں نے وفاق کی اجازت کے بغیر اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے صوبے میں لاک ڈائون کیا۔ یہ وہی عثمان بزدار ہیں جن پر ایک دنیا معترض تھی، آج وہی کورونا کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔

اس وقت پنجاب میں 20ہزار بستروں مشتمل قرنطینہ سینٹرز تیار ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کا وہ سینٹر، جسے کوروناوائرس کے خلاف پہلی دیوار قرار دیا گیا۔ ملتان میں 6ہزار بستروں پر مشتمل قرنطینہ ،بہاولپور، گجرات، ٹیکسلا، فیصل آباد، میانوالی اور تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں قرنطینہ سینٹرزکا قیام۔

راتوں رات ایکسپو سینٹر لاہور میں ایک ہزار بیڈز کا فیلڈ اسپتال۔ کالا شاہ کاکو میں دو ہزار افراد کے لئے قرنطینہ۔ ماسک اور سینی ٹائزر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فیکٹریوں کو را میٹریل کی فراہمی۔

یہ کوئی آسان کام نہیں تھے پھر وزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر پنجاب یونیورسٹی نے سینی ٹائزر، حفاظتی ماسکس اور حفاظتی گیلے ٹشو پیپرز کی تیاری اور مفت تقسیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یونیورسٹی نے وسیع پیمانے پر کورونا وائرس کی تشخیص کی کٹیں بنانا شروع کردی ہیں۔

یونیورسٹی کے سائنس دانوں پر مشتمل گروپ کورونا کی ویکسین بھی تیار کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد، پرو وائس چانسلر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کی کاوشیں قابلِ داد ہیں۔

وہ لوگ جو کہتے تھے لاہور کی ترقی روک کر ڈیرہ غازی خان کو پیرس بنایا جارہا ہے۔ انہیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ وزیراعلیٰ نے سب سے پہلا قرنطینہ سینٹر ڈیرہ غازی خان میں بنایا۔

ایران سے آنے والے مشتبہ افراد کو لاہور یا دیگر اضلاع میں بھیجنے کے بجائے اپنا مہمان بنایا اور پھر کہا ’’مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہورہی ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے قرنطینہ میں موجود 600لوگ آئسولیشن کا عمل پورا کر چکے ہیں اور ان سب کے ٹیسٹ منفی آئے ہیں، ان کو آج باحفاظت گھروں میں پہنچا دیا جائے گا‘‘-


اب تو کسی کو بزدار حکومت کی تعریف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے۔ یہ شخص خاموشی سے گورننس میں بہتری لے آیا ہے۔ اس نے تعلیم اور صحت کے میدان میں غریبوں کو ان کا چھینا ہوا حق واپس دلا دیا ہے اور اس مشکل گھڑی میں مستحق خاندانوں تک حکومت کی جانب سے راشن کی مفت رسائی ممکن بنا رہا ہے۔ شہباز شریف کے لئے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ راشن کی بوری پر اُس کی ایک تصویر بھی نہیں چھپی ہوئی۔

وہ سب لوگ جو اگست 2018سے، ڈیرہ غازی خان سے آئے وزیراعلیٰ کو باقی اضلاع کے ساتھ ناانصافی قرار دے رہے تھے، جو لوگ یہ سوچتے تھے کہ پنجابیوں کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا ظلم ہو گیا ہے اور جن کے قلم کی سیاہی تنقید برائے تنقید کرتے ختم نہیں ہوتی تھی۔

زبانیں بہتان لگاتے نہیں تھکتی تھیں، آج وہ سب وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ’’گھر میں رہیں، محفوظ رہیں‘‘ مہم پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھروں میں محفوظ ہیں- دوسری طرف امریکہ جیسے ملک میں ایک ایک دن میں دس دس ہزار کورونا کے مریض سامنے آرہے ہیں۔

کسی چینی نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے ’’پورس کے ہاتھی اپنی فوج کو روندتے چلے جارہے ہیں‘‘ بہر حال ﷲ تعالیٰ پوری انسانیت کا حامی و ناصر ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔