28 مارچ ، 2020
سندھ حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران سرکاری امداد کے انتظامات اور اس کی شفافیت متاثر ہونے لگی۔
ملیر ہالٹ کے اوور ہیڈ برج کے مقام کو حکومت سندھ نے ایک سماجی تنظیم کے تعاون سے شہریوں میں راشن کی تقسیم کے لیے منتخب کیا۔
سندھ حکومت کا اعلان تھا کہ شہریوں کو امداد ان کے گھر کے دروازے پر ملے گی اورلوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے گا لیکن امدادی پوائنٹ پر ایک کلومیٹر لمبی لائن تھی۔
خواتین بوڑھے اور معذور چلچلاتی دھوپ اورپُل کی چڑھائی سر کریں گے تو ہی انہیں سرکاری امداد مل سکے گی۔
اس بات کا تو خیال رکھا گیا کہ لوگ 6 فٹ کے فاصلے پر رہیں لیکن چلچلاتی دھوپ میں پل کی چڑھائی پر گھسٹتے بوڑھے، معذور اور کمزور لوگوں کے لیے امداد ملنے کے مقام تک پہنچنا ایک آزمائش ہے اور پھر راشن کا وزنی تھیلا اٹھائے ڈھلان سے نچے اترنا ایک اور آزمائش ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے ملیر ہالٹ کے اطراف کے علاقوں میں 5 ہزار امدادی کارڈ تقسیم کیے گئے جنہیں دکھانے پر راشن دیا گیا تاہم بعض افراد نے اِس عمل کے شفاف نہ ہونے کی بھی شکایت کی۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت سندھ کے اقدامات کو سراہا جارہا ہے لیکن لاک ڈاؤن کے اس عمل کے دوران روز کماکر کھانے والی آبادی کے ایک بڑے طبقے، خاص طور پر سفید پوش شہریوں تک امداد پہنچانے کا زیادہ بہتر طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔
خیال رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کے لاک ڈاؤن کے دوران مستحقین تک راشن پہنچانے کا اعلان کیا تھا۔
حکومت سندھ نے صوبے بھر میں 23 مارچ سے 15 روز کیلئے لاک ڈاؤن کررکھا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ سختی بڑھتی جارہی ہے اور تازہ ترین احکامات کے مطابق صوبے میں میڈیکل اسٹورز سمیت تمام دکانیں شام 5 بجے بند کردی جائیں گی۔